Tuesday 23 October 2012

Dr. A.Q Khan



Saturday 13 October 2012

ملالہ حملہ۔ بلی تھیلے سے باہرآگئی۔ شمالی وزیرستان پر بھرپور حملے کا فیصلہ




پاکستان کے شمال مغربی علاقے سوات میں چودہ سالہ طالبہ ملالہ یوسف زئی پر حملے اور اس کے ردعمل کی ملکی اور غیر ملکی میڈیا پر بھرپور کوریج کا ڈراپ سین سامنے آ گیا ہے اور وزیر داخلہ عبدالرحمان ملک نے کہا ہے کہ حکومت وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جنگجوؤں کے خلاف فوجی آپریشن پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے  اور اس کا تقریبا فیصلہ ہو گیا ہے۔وزیر داخلہ نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ہوائی اڈے پر جمعہ کو آمد کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''شمالی وزیرستان دہشت گردوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ حکومت اور عسکری قیادت وہاں فوجی کارروائی کے بارے میں کوئی فیصلہ کرے گی''۔انھوں نے طالبان جنگجوؤں کے لیے ظالمان کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم ان کے خلاف متحد ہوچکی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے چودہ سالہ لڑکی ملالہ یوسف زئی پر حملہ نہیں کیا بلکہ پوری قوم پر حملہ کیا ہے۔

وزیر داخلہ نے ایک نیا دعویٰ یہ کیا کہ ''وہ شمالی وزیرستان سے روزانہ کی بنیاد انٹیلی جنس رپورٹس موصول کر رہے ہیں اور ان رپورٹس سے یہ پتا چلا ہے کہ علاقے میں دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں اور یہی لوگ حملے میں ٕملوث ہیں''۔ ذرائع کے مطابق جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) راول پنڈی میں کورکمانڈروں کا اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں کور کمانڈر پشاور شمالی وزیرستان میں سکیورٹی کی صورت حال کے بارے میں بریفنگ دیں گے۔ اس کے علاوہ پارلیمان کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بھی وہاں کی صورت حال سے متعلق بریفنگ دی جائے گی اور آپریشن کے خدو خال طے کئے جائین گے۔واضح رہے کہ ملالہ یوسف زئی پر طالبان جنگجوؤں کے قاتلانہ حملے کو پاکستانی میڈیا میں غیر معمولی کوریج دی گئی ہے اور یہ واقعہ گذشتہ چار روز سے سیٹلائٹ ٹی وی چینلوں کی خبروں، ٹاک شوز اور حالات حاضرہ کے پروگراموں میں چھایا ہوا ہے۔ ٹی وی چینلز ملالہ پر حملے اور اب اس کی حالت کے بارے میں پل پل کی مسلسل خبریں دے رہے ہیں حالانکہ اس کے ساتھ ہی زخمی ہونی والی مزید دو لڑکیوں کا  کسی نے نام تک نہیں لیا اور ملالہ حملے کے دوسرے دن ہی امریکی ڈرون حملے میں ایک مدرسہ تباہ کیا گیا  جس میں 18 عورتیں اور بچے مارے گئے مگر کسی نے  اس پر اس قدر شور  نہیں کیا۔ اس کے برعکس  میڈیا پر طالبہ پر قاتلانہ حملے اور اس پر ردعمل کے ڈانڈے شمالی وزیرستان میں جنگجوؤں کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی سے ملائے جا رہے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ میڈیا پر بھرپور تشہیر کر کے دیگر قبائلی ایجنسیوں کے بعد شمالی وزیرستان میں جنگجوؤں کے خلاف بڑی فوجی کارروائی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔سماجی روابط کی ویب سائٹ فیس بُک (کتاب چہرہ) کے صارف بہت سے لکھاریوں نے ملالہ پر قاتلانہ حملے کی شدید الفاظ میں اور نثر و نظم کی صورت میں مذمت کی ہے اوراس بہادر لڑکی کو خراج تحسین پیش کیا ہے لیکن ساتھ ہی بعض حضرات نے بالکل بجا طور پر یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ امریکی سی آئی اے کے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں میں مارے گئے کم سن بچوں اور زخمیوں کی اس انداز میں مذمت کیوں نہیں کی جاتی اور انھیں کیوں بھُلا دیا گیا ہے؟ بعض لکھاریوں نے پاکستانی میڈیا کی بھیڑ چال پر بھی کڑی تنقید کی ہے اور انھوں نے ماضی میں اسی طرح کے پیش آئے چار پانچ واقعات کو میڈیا پر اچھالے جانے اور خاص طور پر سوات میں ایک لڑکی کو کوڑے لگانے کے واقعہ کی ویڈیو کا ذکر کیا ہے جو نجی ٹی وی چینلز پر نشر ہونے کے بعد جعلی ثابت ہوئی تھی۔
واضح رہے کہ پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا نے خاص طور پر حالیہ برسوں میں بے پایاں ترقی کی ہے لیکن جس تیزی سے اس نے ترقی کی اور ماضی کی نسبت آزادی حاصل کی ،اس کے مقابلے میں وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کو بہ طریق احسن انجام دینے میں ناکام رہا ہے۔صحافت کی پیشہ ورانہ نزاکتوں سے نابلد میڈیا مالکان کا صحافیوں سے عموماً یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے چینل پر سب سے پہلے خبر دیں۔چنانچہ ایک چینل سے وابستہ صحافی حضرات اچانک پیش آئے کسی واقعہ کی عجلت میں غیر مصدقہ خبر تو ''سب سے پہلے'' کے چکر میں دے دیتے ہیں لیکن اس کے بعد وہ دوسرے چینلوں یا متعلقہ اداروں اور حکام سے اس کی تصدیق کے لیے فون کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو دو مختلف ٹی وی چینلز پر نشرکردہ ایک ہی خبر کی تفصیل ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ اس صورت حال میں ان کے ناظرین الجھاؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

https://www.facebook.com/UnitedPeopleOfPakistan

Friday 12 October 2012

Ameeeeeeeeeeeen!


ٹی 20 ورلڈ کپ میں شکست کے ذمہ دار کپتان محمد حفیظ ہیں۔۔ کوچ ڈیو واٹمور

ملالہ پر حملے کے 3ملزمان گرفتارکرلئے۔ڈی پی او سوات کا دعوی





سوات کے علاقے مینگورہ میں ملالہ یوسف زئی پر حملے میں ملوث تین ملزمان گرفتارکرلیے ،ڈی پی او سوات کے مطابق ملالہ حملہ کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اورحملے میں ملوث تین ملزمان گرفتارکرلیے۔ ڈی پی او کے مطابق حملے کے ماسٹرمائنڈ کا نام عطاء اللہ ہے اوراُس کا تعلق سوات کے علاقے سنگوٹہ سے ہے،ڈی پی او کا کہنا ہے کہ عطااللہ کو بھی جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔گرفتارملزمان کو تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کردیاگیا۔

https://www.facebook.com/UnitedPeopleOfPakistan

مسکراہٹ پر کھلنے والا جدید جاپانی فرج





جاپان کی ایک مقامی یونیورسٹی کے ماہرین نے فرج کیلئے ایسی ڈیوائس متعارف کروائی ہے جس کی بدولت اس کا لاک صرف ایک دلکش مسکراہٹ دینے کے بعد ہی کھلتا ہے۔ مسکراہٹیں بکھیرنے والا یہ فرج اداس چہروں کو بالکل بھی پسند نہیں کرتا اسی لئے تو اس کے دروازے پر نصب کیمرہ کے آگے کھڑا ہو کر پہلے مسکرایا جاتا ہے جس پر یہ راضی ہو کر لاک کھول دیتا ہے۔ اس فرج کی ایک انوکھی بات یہ بھی ہے کہ اسے کھولنے کیلئے دن میں کئی مرتبہ مسکرانے سے نا صرف خوش اخلاقی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ مسکرانے کی عادت بھی پختہ ہو جاتی ہے۔ مسکرائیں۔ فرج کا دروازہ کھولیں اور اپنی پسندیدہ ڈش نکال کر پیٹ بھریں۔

https://www.facebook.com/UnitedPeopleOfPakistan

واہگہ:بھارت سے آنے والے تجارتی سامان سے مشکوک آلات برآمد






بھارت سے واہگہ کے راستے پاکستان آنے والے تجارتی سامان سے مشکوک آلات برآمد ہوئے ہیں۔ واہگہ بارڈر پر پاکستانی کسٹمز حکام کے مطابق مشکوک آلات بھارت سے آنے والی سبزیوں کی پیٹیوں میں چھپائے گئے تھے، مشکوک آلات برآمد ہونے کے الزام میں 4افراد کوحراست میں لے لیا گیا، برآمد ہونے والے آلات کو لیبارٹری ٹیسٹ کیلئے بھجوا دیا گیا۔

https://www.facebook.com/UnitedPeopleOfPakistan

ملالہ پر حملہ طالبان نے نہیں کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کا انکشاف







وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ وہ طالبان کی جانب سے ملالہ یوسف زئی پر حملے کی تصدیق نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پاس ایسی کوئی انٹیلی جنس انفارمیشن نہیں ہے کہ یہ حملہ طالبان نے کیا ہے۔ملالہ یوسف زئی کی زندگی کیلئے آئندہ 36 گھنٹے بہت اہم ہیں۔ اسلام آباد میں سابق برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفت گو میں رحمان ملک کاکہناتھاکہ حکیم الله محسود کی طاقت ختم ہو چکی ہے اور ان کے کئی گروپ بن چکے ہیں،اس لیے وہ طالبان کے دعوے کی تصدیق نہیں کر سکتے کہ واقعی یہ حملہ طالبان نے ہی کیا ہے بلکہ یہ کسی دشمنی کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے  یا پھر کسی اور گروپ کی طرف سے بھی حملہ ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختون خوا حکومت نے ملالہ کو سیکورٹی فراہم کرنے کی پیش کش کی تھی تاہم اس کے والدین نے سیکورٹی لینے سے انکار کر دیا تھا۔رحمان ملک نے کہا کہ انہوں نے آئی جی خیبرپختون خوا کو ہدایت ہے کہ ملالہ اور اس کے والدین کو خصوصی سیکورٹی فراہم کی جائے۔
 واضح رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کی طرف سے یہ بیان آنے سے پہلے بھی سرکاری سطح پر اب تک طالبان کا نام لے کر کسی نے بھی مذمت نہیں کی ہے حتی کہ آرمی چیف نے بھی صرف لفظ دہشت گرد کہا۔  صدر، وزیر اعظم، آرمی چیف اور دیگر اعلی سرکاری عہدےد ار اس حملے  کا ذٕمہ دار طالبان کو ٹھہرانے کے بجائے دہشت گردوں کو ٹھہرا رہےہیں  جب کہ میڈیا بار بار اس بات پر زور دے رہا ہے کہ طالبان کا نام لے کر مذمت کی جائے۔ اس مہم میں بی  بی سی اور امریکی نشریاتی ادارے پیش پیش ہیں۔ سب سے پہلے بی بی سی نے ہی دعوی کیا کہ حملہ طالبان نے کیا ہے اور انہوں نے ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ پھر اس کا کہنا تھا کہ ملالہ یوسفزئی پر حملے کرنے والے کون تھے یہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی مہربانی سے واضح ہوگیا ہے۔ لیکن پھر بھی اکثر سیاست دان مصلحتوں کا شکار ہو کر اپنے مذمتی بیانات میں طالبان کا لفظ استعمال کرنے سے کترا رہے ہیں۔ اس سے زیادہ ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی ہے۔ اس بابت پارلیمان کی متفقہ قرار داد اور فوجی سربراہ کا بیان بھی قابل ذکر ہے۔پاکستان فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی واقعے کے چوبیس گھنٹوں سے بھی کم وقت میں پشاور آمد اور ہسپتال میں ملالہ یوسفزئی کی خیریت معلوم کرنا انتہائی احسن اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے سیاستدانوں کو ایک مرتبہ پھر پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
لیکن فوجی سربراہ نے دورے کے بعد ایک تفصیلی بیان بھی جاری کیا  لیکن اس میں انہوں نے طالبان کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ ’دہشت گرد‘ کہا ہے۔ اور یہی قومی اسمبلی کی قرار داد کے بارے میں دیکھنے کو ملا ہے۔وزیر اعظم کا کل کا قومی اسمبلی میں پالیسی بیان ہو یا صدر آصف علی زرداری کا مذمتی بیان کسی نے طالبان لفظ استعمال نہیں کیا۔کچھ لوگوں کے خیال میں شاید ان کے نزدیک طالبان کے لیے اب بھی کوئی نرم گوشہ موجود ہے جس کے باعث وہ انہیں نام سے یاد کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ تمام ریاست طالبان کے سامنے بےبس ہے۔
 دریں اثنا وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ ملالہ یوسف زئی پر حملہ کرنے والوں کی شناخت ہوگئی، دہشت گرد افغانستان سے آئے تھے، افغان صدر سے شکایت کی ہے کہ دہشت گردوں کوسرحد پار آنے سے روکیں، حملہ کرنے والے دہشت گردکہیں بھاگ نہیں سکتے انہیں گرفتار کرکے ہرحال میں قرارواقعی سزا دی جائے گی۔ وہ سی ایم ایچ پشاور میں زخمی طالبہ کی عیادت کے بعد صحافیوں سے گفتگوکر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ملالہ کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجے جانے سے متعلق فیصلہ فی الحال موٴخرکردیا گیا امریکا اور لندن میں نیوروسرجن تیار ہیں اگرضرورت پڑی تو انہیں پاکستان بلایاجائے گا، پوری قوم ملالہ یوسف زئی کی صحت یابی کے لیے دعا کرے، دہشت گردوں کی شناخت ہوگئی ہے اورہمیں یہ بھی پتا ہے کہ وہ کتنے دن پہلے سوات میں آئے تھے اورانہوں نے کن کن لوگوں کو استعمال کیا اورکیا طریقہ واردات اختیارکیا، آئی جی خیبرپختونخوا نے ملالہ کے والدکو تین مرتبہ سیکورٹی دینے کی پیشکش کی تھی لیکن انہوں نے انکار کردیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملالہ یوسف زئی کے علاج کے لیے صدر آصف زرداری نے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں۔ ایک سوال کے جواب رحمن ملک نے کہا کہ مناسب وقت پر شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ہوگا اور ابھی مناسب وقت نہیں ہے۔
 دہشت گردوں کے ہاتھوں زخمی ہونے والی طالبہ ملالہ یوسفزئی کو دوبارہ قتل کی دھمکیوں کے پیش نظر سیکورٹی اور علاج معالجہ کے امور پر آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی اور وزیر داخلہ رحمن ملک کے درمیان بات چیت ہوئی ہے۔ وزیر داخلہ رحمن ملک کی ہدایت پر قتل کی تازہ دھمکیوں کے پیش نظر ملالہ یوسفزئی کے لیے نیا سیکورٹی حصار قائم کر دیا گیا ہے۔ ملالہ یوسفزئی کی زندگی کی حفاظت کے لیے گھرکے اندر لیڈی پولیس کمانڈوز اور باہر انسداد دہشت گردی تعینات ہوں گے پیشگی اجازت کے بغیر میل جول پر پابندی ہوگی۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے بتایا کہ ملالہ یوسفزئی کی حفاظت کے لیے خیبر پختونخوا آئی جی نے دو مرتبہ سیکورٹی دستے بھیجے مگر انکے والد ضیاء الدین نے انکارکر دیا اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملالہ یوسفزئی کی زندگی کی حفاظت کے لیے نیا سیکورٹی کوڈ نافذکیا جائے گا گھرکے اندر لیڈی پولیس اور باہر مرد پولیس کمانڈوز تعینات ہوں گے۔ رحمن ملک کا کہنا تھا کہ ملالہ یوسفزئی کے واقعہ میں ڈرائیور بھی قصور وار تھا۔ اسکول سے گھر واپسی کے وقت دو لڑکوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسکول وین کو روکا اور انہوں نے ڈرائیور سے کہا کہ ہماری ایک بچی گم ہوگئی ہے اسے تلاش کر رہے ہیں اسکے بعد ایک لڑکے نے ڈرائیورکو باتوں میں مصروف کرلیا ۔   

 https://www.facebook.com/UnitedPeopleOfPakistan

بے وقوف مفلس زادیاں پوچھتی ہیں ان کے قتل پر کیوں شور نہیں اٹھا؟


 یہ تین بچیاں ہیں اور تینوں ہی پاکستانی ہیں۔ا ن  میں سےایک  ڈیڑھ سال کی ملالہ ہے۔ دوسری ڈھائی سال کی گل  زینب ہے اور تیسری ساڑھے تین سال کی  گل پری ہے۔ یہ تینوں امریکی حملے میں اپنے گھر میں ماری گئیں  اور تینوں ہی بہنیں تھیں۔ وزیرستان میں ایسے بچیاں ہر روز امریکی حملے میں جان ہار دیتی ہیں مگر ان کو والدین پوچھتے ہیں کہ ان کی بچیوں کے قتل پر کیوں کسی طرف سے شور نہیں اٹھا؟

https://www.facebook.com/UnitedPeopleOfPakistan 

Thursday 11 October 2012

Difference between Europe & Pakistan! Streets Of Pakistan......Coming Soon!


Ameen!

پی پی رہنمااب میرا فون تک نہیں سنتے۔ سابقّّ وزیر اعظم کا گلہ


ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ مہمان‘ میزبان کو بتائے بغیر سامان اٹھا کر چلا گیا اور وہ بھی ملک کے سب سے بڑے گھر یعنی ایوان صدر کے مہمان یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ہوا جو پلہ مچھلی اورسندھی بریانی سے شروع ہونے والی مہمان نوازی کو ان کے منظور نظر بیورو کریٹس اور صدر ہاؤس آنے والے ان کے مہمانوں کو ملنے والے ”حسن سلوک“ کا نتیجہ ہے۔ گیلانی بطور وزیراعظم چاہتے تھے کہ ان کے وزیراعظم ہاؤس سے جانے کے بعد وزیراعظم ہاؤس یتیم خانہ بنے لیکن ان کے بعد آنے والے کسی وزیراعظم کو مارگلہ کی پہاڑیوں کی اونچی راہداری والا گھر نہ مل سکے مگر ان کے خواب ملتان کے آم ثابت ہوئے بالکل موسمی‘ ان کے انتہائی ایک قریبی سابق دوست نے کہا کہ ان کی کابینہ کے لوگ آج کل ان سے چھپتے پھررہے ہیں اور ان کے موبائل نمبر سے آنے والی کال کو سننے سے گریزاں ہیں۔

https://www.facebook.com/UnitedPeopleOfPakistan 

پاکستانی وادی کیلاش سے اکثر نو عمر لڑکیوں کو یونان خرید کر لے جا رہا ہے۔تحقیقی رپورٹ


چترال کا نام زبان پر آتے ہی کچھ مخصوص چیزیں فوراً ذہن میں آ جاتی ہیں.... پولو.... آغا خانی.... وادی کیلاش کی کافر تہذیب اور چترال سے پاکستان بھر میں ہونے والی شادیوں کی روایت۔ ہمیں بھی انہی سب باتوں نے ایک بار پھر چترال جانے پر مجبور کیا، لیکن ہم چترال کی تمام تر روایات اور باتوں میں سے سب سے پہلے وادی کیلاش کے کافروں کا ذکر کریں گے کہ جو تیزی سے اسلام قبول کر رہے ہیں، کافر تہذیب مٹ رہی ہے کہ غیر مسلم دنیا نے اسے پاکستان میں اپنے لئے نئے خطرے کی گھنٹی جان کر دن رات ایک کر دیئے۔ ماہ مئی کے اواخر میں دنیا کے سب سے بڑے نشریاتی ادارے بی بی سی نے بھی کافر تہذیب کے مٹنے پر سخت تشویش کا اظہار کیا تو ہمیں بھی خیال آیا کہ چل کر دیکھیں تو سہی کہ ان لوگوں کو کیوں اور کیا پریشانی ہے؟
چترال جانے کے لئے راستہ تو سوات سے جاتا ہے لیکن دیر بالا کے بعد کئی گھنٹوں کا سفر انتہائی دشوار گزار اور پہاڑی ہے۔ سردیوں کے موسم میں چترال باقی ملک سے کٹ جاتا ہے، اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے دیر سے چترال تک لواری کے پہاڑی سلسلے میں ایک سرنگ بنائی جا رہی ہے، سرنگ کا منصوبہ تقریباً 30سال پرانا ہے جسے پانچ سال پہلے ایک بار پھر شروع کیا گیا ہے، لیکن موجودہ پاکستانی حکومت کی ”مہربانیوں“ کے باعث سرنگ کھودنے والی کورین کمپنی سامبو کام چھوڑ کر جا چکی ہے جس روز ہم وہاں پہنچے، سامبو کا سامان ٹرکوں پر لادا جا رہا تھا اور چترال کے عوام اس پر شدید مضطرب اور پریشان تھے۔ آج کل یہ لوگ مسلسل مظاہرے کر رہے ہیں لواری ٹنل تقریباً سوا آٹھ کلو میٹر طویل ہے لیکن تاحال اس کا مخصوص ”درہ کھودا گیا ہے۔ یہاں سے گاڑیاں تو گزرتی ہیں لیکن مخصوص محکمے کی خصوصی اجازت کے بعد کیونکہ سرنگ اندر سے کچی اور زیرتعمیر ہے وگرنہ ساری ٹریفک گھنٹوں کا سفر طے کر کے چترال پہنچتی ہے۔
چترال کی وادی کیلاش جسے دنیا کافرستان کے نام سے بھی یاد کرتی ہے چترال شہر سے تقریباً 30 کلو میٹر پہلے مغرب کی طرف واقع ہے۔ راستے میں غیریت اور دروش کے علاقے آتے ہیں لیکن اب وادی کیلاش کافرستان نہیں رہی کیونکہ یہاں کے لوگوں کی بھاری اکثریت نے اسلام کی حقانیت سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا ہے۔ باقی ماندہ لوگ بھی اسلام قبول کر رہے ہیں لیکن اب غیر ملکی ادارے اور قوتیں ان کے راستے کی رکاوٹ بن رہی ہیں۔ کیلاش قبیلے کو مکمل طور پر حلقہ بگوش اسلام ہونے سے بچانے کے لئے بے تحاشہ پیسہ بہایا جا رہا ہے۔ وہی کیلاش جو کل تک مکمل قلاش تھے اب روپے پیسے میں کھیلتے ہیں اور ان کی اکثرلڑکیوں کو یونان کی حکومت اور این جی اوز خرید کرلے جاتی ہیں اور پھر ان کی تربیت کرنے کےبعد جب وہ جوان ہوجاتی ہیں انہیں واپس اس وادی میں بھاری رقم دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ  ایک طرف مقامی مسلمانوں کو اپنی محبت کے جال مین پھنسائیں اور ان سے شادی کر کے انہیں اپنے مذہب میں شامل کریں اور دوسری طرف وہ کسی کو مسلمان نہ ہونے دیں لیکن پھر بھی.... گاہے گاہے ان کے لوگ مسلمان ہو ہی جاتے ہیں۔
چترال چونکہ افغانستان کے ان دو صوبوں کنہڑ اور نورستان کے ساتھ براہ راست سرحد رکھتا ہے، جہاں امریکی اور اتحادی افواج پر افغانستان کی تاریخ کے سخت ترین حملے ہوئے اور اتحادی سب سے پہلے انہی دو صوبوں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے، اس لئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی چترال اور خصوصاً افغان سرحدی علاقہ کیلاش پر خصوصی نگاہ ہے۔ اس حوالے سے یہ رپورٹیں بھی آتی رہی ہیں کہ امریکہ چترال پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
وادی کیلاش بنیادی طور پر 3حصوں پر مشتمل ہے۔ چترال شہر سے تقریباً 30 کلو میٹر پہلے ایون نامی ایک چھوٹا قصبہ آتا ہے جہاں سے اس علاقے کو جانے کے لئے راستے نکلتے ہیں۔ ایک طرف وادی بریر دوسری طرف بمبوریت اور تیسری طرف وادی رمبور ہے، لیکن ان سب میں مرکزی حیثیت بمبوریت کو حاصل ہے جہاں کیلاش سب سے زیادہ بستے ہیں۔ اسی علاقے میں ہی سب سے زیادہ ہوٹل اور سیاحوں کے لئے سامان تفریح مہیا ہے۔ دوسرے نمبر پر رمبور ہے جبکہ بریر کی طرف بہت کم ہی لوگ رخ کرتے ہیں کیونکہ یہ زیادہ بلندی پر بھی نہیں اور اس کا موسم بھی اس قدر ٹھنڈا نہیں کہ سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ سکتے۔
کیلاش قبیلے کی تاریخ: کیلاش قبیلے کی تاریخ پر بھی مورخین کا اختلاف ہے۔ کیلاش خود کو بنیادی طور پر سکندر اعظم کی اولاد کہتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق سکندر اعظم کی افواج کے زخمی سپاہی اپنے اہل و عیال سمیت یہاں ٹھہر گئے تھے اور پھر وہیں سے یہ قبیلہ پرورش پاتا گیا۔ ایک دوسری روایت کے مطابق یہ لوگ دو سو سال قبل مسیح سے تعلق رکھتے ہیں اور بنیادی طور پر یہ لوگ افغان صوبہ نورستان کے باسی ہیں۔ 1890ءمیں جب نورستان کے امیر عبدالرحمان نے صوبہ کا نام کافرستان سے نورستان رکھا اور وہاں کے لوگوں کو دعوت اسلام دی تو تقریباً سبھی لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ معدودے چند لوگ اسلام قبول کرنے سے منکر ہوئے اور پھر کیلاش کی وادیوں میں آ کر بس گئے۔ ایک اور روایت کے مطابق کیلاش قبیلہ عرصہ دراز تک چترال کا حکمران رہا۔ پھر یہاں کے مسلمانوں نے انہیں شکست دیکر چترال چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور یہ لوگ جان کی امان پا کر وادیوں گھاٹیوں میں رہنے لگے۔ ویسے اس بات پر تقریباً سبھی کا اتفاق ہے کہ چترال پر کیلاش قبیلہ کی حکومت رہی ہے اور یہ کہ چند دہائیاں قبل ان کی آبادی 35 سے 40 ہزار تک تھی لیکن اب یہ لوگ 2 ہزار سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ اس بات کا ایک عملی ثبوت یہ بھی ہے کہ ان لوگوں کے کیلاشی لباس پہن کر چترال یا علاقے کے دوسرے حصوں میں جانے پرپابندی ہے۔
کیلاشی روایات جو دم توڑ گئیں: کیلاش قبیلہ کالا لباس پہننے کی وجہ سے کالا کافر بھی کہلاتا ہے۔ یہ لوگ پہلے پہل ساری زندگی غسل نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ گندے رہتے لیکن اب وہ صفائی ستھرائی کو اپنا چکے ہیں۔ اگرچہ ان کے ہاں اب بھی غسل کا رواج کم ہے لیکن کبھی نہ غسل کرنے کا رواج ختم ہوچکا ہے.... یہ لوگ پہلے پہل اپنے مردوں کو دفن کرنے کی بجائے لکڑی کے ڈبے میں مردے کی ذاتی اشیاءکے ساتھ اسے قریبی جنگل میں چھوڑ دیتے تھے۔ وہ وہیں گلتا سڑتا، بدبو پیدا کرتا اور پھرختم ہو جاتا.... خدا پر تو ان کا ایمان ہے اس لئے وہ مردے کے حساب کتاب پر ایمان رکھتے ہوئے ایک بندوق بھی تھما دیتے تھے کہ جب نعوذ باللہ فرشتے آئیں تو وہ ان پر گولی چلا دے۔ جب مردہ خشک ہو جاتا اور اس کی انگلی سے ٹریگر دب جاتا اور گولی کا دھماکہ ہوتا تو کیلاشی خوشی سے جشن مناتے کہ ہمارے مردے نے فرشتوں کو نعوذ باللہ گولی مار دی ہے لیکن جب کیلاشی قبیلے نے دیکھا کہ ان کے مردوں کی قیمتی اشیاءاور بندوق وغیرہ مقامی نوجوان اچک لے جاتے ہیں تو انہوں نے یہ سلسلہ ترک ہی کر دیا۔ گولی چلنے کا واقعہ ویسے بھی بمشکل چند مرتبہ ہی پیش آیا.... اب ان لوگوں نے مردوں کو باقاعدہ دفن کرنا شروع کر دیا ہے لیکن پرانی روایت کے ڈبے، مردوں کی ہڈیاں اور نشانات سب کچھ وہاں موجود ہےں اور دیکھا جا سکتا ہے۔ ان روایات کو ختم کرنے میں بھی مقامی مسلمانوں کا بڑا کردار ہے، جنہوں نے کیلاش لوگوں کو وعظ و نصیحت سے سمجھایا کہ ان کے ان افعال سے سب کو تکلیف ہوتی ہے، مردوں کی بدبو، گندے جسم اورگندے گھر تعفن اور بیماریاں پھیلاتے ہیں اور ہر کوئی ان سے نفرت کرتاہے۔ مسلمانوں نے جب انہیں صاف ستھرا رہنے کی طرف توجہ دلائی اور اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کیا تو بہت سے لوگ اسلام کی اس خوبصورت تعلیم سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئے۔
یونان کی خصوصی مداخلت: کیلاش لوگ اپنے آپ کو سکندر اعظم کی اولاد کہتے اور سمجھتے ہیں چونکہ تاریخ کے مطابق سکندر اعظم کا تعلق یونان سے تھا اس لئے یونانی حکومت اور این جی اوز نے اس علاقے میں خصوصی دلچسپی لی۔ مغربی ممالک سے آنے والے سیاحوں میں ہمیشہ بھاری اکثریت یونان کے سیاحوں کی رہی ہے۔ 17 سال قبل 1994ءمیں یہاں یونان کی جانب سے ایک بڑے منصوبے کا آغاز ہوا۔ بمبوریت وادی میں یونانی تہذیب اور کیلاش تہذیب کو محفوظ رکھنے کے لئے ایک خصوصی عجائب گھر بنانے کی تیاریاں شروع ہوئیں چند سال میں یہ عظیم الشان عجائب گھر تیار ہو گیا۔ یہاں یونان سے ہی آنے والے ایک پادری نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ طویل عرصہ یہاں رہنے کے باوجود اس نے کبھی کسی کو اپنا اصل نام اور شناخت نہ بتائی۔ اپنے آپ کو سماجی کارکن کہلوانے والے پروفیسر آتھانسوئیوس لریلیونس کے نام سے معروف اس پادری نے یہاں سکول بھی قائم کیا۔ مقامی بچوں کو اپنے سکول میں داخل کیا انہیں معاوضے دیئے۔ کیلاشی لوگوں کے لئے پانی، بجلی، سڑکوں کی تعمیر وغیرہ کے منصوبوں کا آغاز کیا اور پھر اس کی نگرانی میں بہت سے منصوبے مکمل ہونے لگے۔ کیلاشی بچے جو اس کے سکول یا دیگر غیر ملکی این جی اوز کے سکول میں پڑھنے کے لئے جاتے اور آج بھی جاتے ہیں، کو خصوصی وظیفہ جاری کیاجاتا۔ یہ سلسلہ اب بھی چل رہاہے۔ مغربی اداروں اور یونان نے اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے پاکستان کے اندر ایسے ناموں سے ادارے قائم کر رکھے ہیں کہ بظاہر دیکھنے میں یوں لگتا ہے کہ یہ ادارے پاکستان کے ہی ادارے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
کی مانند، ان کے دکھانے کے دانت اور ہیں کھانے کے اور۔ 8 ستمبر 2009ءکو یونانی پادری کو نامعلوم افراد نے اغوا کر لیا، اس کے اس کا عظیم الشان عجائب خانہ بند کر دیا گیا۔ 9 اپریل 2010ءکو یونانی پادری افغانستان سے رہا ہو کر پاکستان پہنچ گیا۔ بتایا گیا کہ اسے افغان طالبان نے اغوا کیا تھا اور پھر اس کے بدلے اپنے اہم کمانڈر رہا کروائے اور بھاری معاوصہ بھی وصول کیا۔ رہائی کے بعد پادری نے پاکستان چھوڑ دیا لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اس عجائب خانہ سے تھوڑے ہی فاصلہ پر کئی ملین کی لاگت سے ایک اور عجائب خانہ تیزی سے تعمیر کیا جا رہا ہے صرف یہی نہیں، وادی کیلاش میں جگہ جگہ عالیشان ”بشالیاں“ بھی غیر ملکی این جی اوز جدید سے جدید انداز میں تعمیر کر رہی ہیں۔ بشالی دراصل وہ مخصوص گھر ہے جو دریا یا ندی کے کنارے واقع ہوتا ہے۔ یہاں کیلاش قبیلے کی عورتیں اپنے ماہانہ مخصوص ایام اور زچگی کے دنوں میں اپنے خاندان سے الگ ہو کر آ بستی ہیں اور دوبارہ اپنے ایام مکمل ہونے تک یہاں سے واپس نہیں جاتیں، واپس جانے سے پہلے وہ قریبی ندی میں نہاتی ہیں، ان کے کھانے پینے وغیرہ کا انتظام بھی یہیں ہوتا ہے۔ ان عورتوں کے رہنے کی جگہ کو بشالی کہا جاتا ہے تو ان عورتوں کو بشالین۔ یہ وہ روایت ہے جو مشرکین عرب میں اسلام کی آمد سے پہلے پائی جاتی تھی اور جس کا خاتمہ اسلام نے کیا تھا لیکن یہ روایت یہاں آج بھی موجود ہے اور اسے بچانے اور پروان چڑھانے کے لئے غیر مسلم دنیا دن رات متحرک ہے۔

https://www.facebook.com/UnitedPeopleOfPakistan

Wednesday 10 October 2012

چالیس سال مسلح جدوجہد کےبعد فلپائنی مسلمان علیحدہ ملک لینے میں کامیاب ہوگئے






منیلا(ثناء نیوز )اسلامی دنیا میں ایک نئے ملک کا ا ضافہ ہوگیا ہے ۔ بنگسا مورو (Bangsamoro) نام کے نئے اسلامی ملک ملائشیا اور فلپائن کے درمیان بنایا جائے گا نئے اسلامی ملک کے قیام کے معائدے پر15 اکتوبر کو دستخط کیے جائیں گئے ۔اس سلسلے میں۔فلپائن حکومت نے ملک کے سب سے بڑے باغی مسلمان گروپ کے ساتھ امن معاہدے کا فریم ورک طے کر لیا ہے۔اِس بات کا اعلان فلپائن کے صدر بینگنو اکوانو نے کیا ہے۔اس امن معاہدہ کے لیے مورو اسلامک لبریشن فرنٹ (ایم آئی ایل ایف) کے ساتھ بات چیت کا ایک طویل دور چلا تا کہ چالیس سال سے جاری تصادم ختم کیا جا سکے جس میں ایک تخمینے کے مطابق ایک لاکھ بیس ہزار جانیں جا چکی ہیں۔اس معاہدہ کے تحت جنوب میں ایک خود مختار علاقہ بنایا جائے گا جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ حالانکہ یہ مجموعی طور پر کیتھولک ملک ہے۔یہ معاہدہ پڑوسی ملک ملائشیا میں فریقین کے درمیان بات چیت کے بعد طے پایا ہے اور امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ فلپائن کے دارالحکومت میں پندرہ اکتوبر کو باضابطہ طور اس معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے۔خبروں میں کہا گیا ہے کہ مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے ایک ترجمان نے اس معاہدے پر بے حد خوشی کا اظہار کیا ہے۔ایم آئی ایل ایف کے سیاسی امور کے نائب صدر غزالی جعفر نے کہا کہ ہم لوگ کافی خوش ہیں اور ہم اس کے لیے صدر کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔صدر اکوانو نے ملک کے جنوبی علاقے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ فریم ورک معاہدہ مندانا میں حتمی اور پائدار امن کا راستہ ہموار کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ ابھی بھی فریقین میں بہت سی تفصیلات پر اتفاق ہونا ہے۔اس فریم ورک معاہدے کی ایک کاپی میں کہا گیا ہے کہ جامع معاہدہ اس سال کے آخیر تک ہو جائے گا۔نامہ نگاروں کا کہنا ہے یہ معاہدہ قیام امن کے سلسلے میں ایک اہم قدم ہے حالانکہ ایم آئی ایل ایف کے ساتھ گزشتہ پندرہ برسوں میں امن کی تمام کوششیں ناکام اور تشدد کا شکار رہی ہیں۔یہ امید بھی ظاہر کی جا رہی ہے کہ اس معاہدے پر دو ہزار سولہ میں صدر اکوانو کے عہدہ صدارت کے اختتام تک عملی جامہ پہنایا جائے گا۔صدر اکوانو نے کہا ہے کہ اس خودمختار علاقے کا نام وہاں کے مورو باشندوں کے نام پر ‘بنگسامورو’ رکھا جائے گا۔صدر نے کہا کہ یہ معاہدہ تمام تعصبات سے بالا تر ہو کر کیا گیا ہے اور بے یقینی اور کم نظری کو خارج کیا گیا ہے جس نے گزشتہ تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا تھا۔’اتوار کو ہونے والے اس معاہدے سے ایک عبوری کمیشن کا قیام عمل میں آیا ہے جو اس فریم ورک معاہدے کے ضوابط طے کرے گا۔فلپائنی حکومت اور مسلم علیحدگی پسندوں کے مرکزی گروپ کے مابین ملائشیا کی میزبانی میں جاری مذاکرات میں کامیابی کے اشارے سامنے آئے ہیں۔ فلپائن کے صدر اکینو کے مطابق ممکنہ معاہدے کی ابتدائی شکل پر اتفاق رائے پیدا ہو گیا ہے۔ منیلا سے جاری ہونے والے ایک حکومتی بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت اور مسلمان علیحدگی پسندوں کے بڑے گروپ مورو اسلامک فرنٹ کے درمیان جاری بات چیت کے دوران حتمی امن معاہدے کی ابتدائی صورت پر اتفاق رائے پیدا ہو گیا ہے۔ ابتدائی معاہدے کے مطابق فریقین رواں برس کے اختتام پر سمجھوتے کی حتمی دستاویز پر دستخط کر دیں گے۔ ابتدائی معاہدے پر فریقین اپنی رضامندی کے اظہار کے طور پر دستخط پندرہ اکتوبر کو کر رہے ہیں۔ اس تقریب میں میزبان ملائشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق اور فلپائن کے صدر بینِیگنو اکینو بھی شریک ہوں گے۔اس معاہدے کے تحت ایک نئے خود مختار علاے کے قیام کے روڈ میپ پر عمل کیا جائے گا اور حتمی معاہدے کے بعد اس خود مختار علاقے کو ایک نئے سیاسی نام کے ساتھ مزید اختیارات سن 2016 میں دے دیے جائیں گے۔ یہ خود مختار علاقہ صدر اکینو کی مدت صدارت سے قبل قائم کر دیا جائیگا۔ اکینو کی مدت صدارت سن 2016 کے اختتام پر پوری ہونے سے قبل الیکشن بھی شیڈیول ہیں۔فلپائن کے اگلے عام انتخابات سے قبل نئے خود مختار علاقے کے حوالے سے ایک استصواب رائے بھی تجویز کیا گیا ہے۔ نئے خود مختار علاقے کا نام بنگسا مورو (Bangsamoro) رکھا جائے گا۔ بنگسا مورو کا نام اس علاقے کے مقامی باشندوں کی مناسبت سے ہے۔ اکینو نے اس نام کی مناسبت سے کہا کہ یہ منڈانا میں جد و جہد کرنے والوں کے اعزاز میں رکھا گیا ہے۔ ایسے خدشات کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ مورو اسلامک فرنٹ سے انتہا پسند گروپ علیحدگی اختیار کر سکتا ہے، جس سے تشدد اور کشیدگی کی ایک نئی لہر ابھر آئے گی۔ اس ابتدائی معاہدے کے اعلان کے فوری بعد ایک دوسرے متحرک انتہا پسند گروپ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ اس علاقے میں اسلامی ریاست کے قیام تک تحریک جاری رکھے گا۔ یہ اعلان بنگسا مورو اسلامک فریڈم موومنٹ کی جانب سے کیا گیا ہے۔فلپائن کے علاقے جنوبی منڈانا کے جنوبی خطے میں تنازعہ گزشتہ چار دہائیوں سے جاری ہے۔ مسلمان علیحدگی پسندوں کے چالیس سالہ پرانے مسلح تنازعے میں اب تک ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ فلپائن رومن کیتھولک مسیحی اکثریت آبادی کا حامل ملک ہے۔ جنوبی منڈانا کا سارا علاقہ معدنی دولت سے مالا مال تصور کیا جاتا ہے اور یہ فلپائن کی اقتصادی بحالی میں اہم کردار کر سکتا ہے۔

https://www.facebook.com/UnitedPeopleOfPakistan

خواتین کو گھر میں بند رکھنا اسلام میں جائز نہیں۔ مفکر اسلام کی اہم تحقیق


جن لوگوں نے یورپ و امریکہ میں زندگی کا مشاہدہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ وہاں خاندان حقیقت کے بجائے وہم و خواب بن چکا ہے۔ بہترین نسلوں کی پرورش و پرداخت کے لئے جو بہترین ماحول بنایا جانا چاہئے وہاں خاندان کا بہت معمولی حصہ فراہم کرتا ہے۔ عورت اپنے اپنے کاموں سے باہر نکلے رہتے ہیں یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں کے سپرد کر دئے جاتے ہیں۔
جب اہلِ مغرب ہمارے یہاں خاندان کی اہمیت و حالات کے بارے میں سنتے ہیں تو بہت سی نوجوان عورتیں چاہتی ہیں کہ اس ماحول میں زندگی گزاریں لیکن ہمارے ماحول میں عورت جس فکری و نفسیاتی کمتری سے دوچار ہے اسے دیکھ کر وہ ہمت نہیں کرپاتیں۔
میرے خیال میں جو پڑھی لکھی عورت گھر سے باہر ہی زندگی گزارتی ہے وہ اس سے بے پڑھی لکھی عورت سے بہتر پوزیشن میں نہیں ہوتی جو گھر کے اندر ہی محدود رہتی ہے۔
ہمیں جاننا چاہئے کہ یہ ایک حقیقی نعمت ہے کہ زندگی کا دائرہ باپوں سے اولاد تک اور ان سے پوتوں تک پھیلے اور ایک مستحکم خاندان اس کی بنیاد ہو۔ محض تعداد میں اضافہ اس نعمت کا رکاز نہیں بلکہ عظمت اس نسل سے دوسری نسل تک عقائد اور صالح روایات کی وراثت و منتقلی ہے۔
ہمارے یہاں خاندان دین اور اس کے اصولوں اور عبادتوں کا قعلعہ ہے اور اس میں مرد ہی کی طرح عورت کا کردار اور اس کا اجر بھی مسافیانہ حیثیت رکھتا ہے اللہ تعالی فرماتا ہے:
اور اللہ نے تمہارے لئے ہم جنس بیویاں بنائیں اور اس نخے ان بیویوں سے تمہیں بیٹے پوتے عطا کیے اور اچھی اچھی چیزیں تمہیں کھانے کو دیں پھر کیا یہ لوگ باطل مو مانتے ہیں اور اللہ کے احسان کا انکار کرتے ہیں۔(النحل:٨٢)
زندگی کے رواں دواں قافلہ میں مرد بھاری بوجھ سنبھالنے والے ہوتے ہیں چاہے وہ سیاستداں ہو یا اساتذہ، دکاندار ہوں یا مزدور۔ وہ جب گھر لوٹتے ہیں تو اس کی سخت ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ گرمجوشانہ جذبات کا ماحول ملے جس گھر کی بنیاد ایسی عورت پر ہوتی ہے جو یہ ماحول فراہم کرے وہ نہایت بلند مرتبہ بلکہ سب سے قیمتی گھر ہوتا ہے۔
مغربی روایات نے خاندان کے وجود کو تہ و بالا کر دیا ہے بلکہ یہ روایات تو پوری دنیا ہی کو تہ و بالا کئے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف اسلامی روایات سے کم ہی لوگ واقف ہیں اور جاہل متدین لوگ ان روایات کو پھیلانے میں سخت مزاحمت کرتے ہیں۔
بہر حال عورت کا گھر کی مالکہ کا کردار بہترین کردار ہے۔ دیگر ذمے داریاں جو عورت کو سنبھالنی پڑتی ہیں وہ اس بنیادی کردار میں حائل نہیں ہونی چاہئیں۔
حافیظ ابن عبدالبر نے روایت نقیل کی ہیغ کہ حضرت اسمائ بنت یزید انصار یہ رسولۖ کے پاس آئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپۖ پر فدا ہوں میں آپۖ کے پا عورتوں کی نمائندہ بن کر آئی ہوں۔ اللہ تعالی نے آپ کو تمام مردوں اور عورتوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے۔ ہم آپ پر اور اللہ تعالی پر ایمان لا ئے، ہم عورتیں گھروں میں محدود محضور ہیں اور مردوں کی اولاد کی دیکھ بھال کرتی ہیں جبکہ مرد جمعہ جماعت میں شرکت، مریضوں کی عیادت، حج، جنازوں میں شرکت اور سب سے بڑھ کر اللہ کی راہ میں جہاد کا ذریعہ ہم سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ جب مرد حج و عمرہ یا جہاد کے لئے نکلتے ہیں تو ہم ان کے مال کی حفاظت کرتی ہیں، ان کے لئے کپڑے تیار کرتی ہیں اور اولاد کی پرورش کرتی ہیں تو کیا ان کے اجر میں ہماری شرکت بھی ہوگی؟ رسول اللہۖ اپنے صحابہ کی طرف پوری طرح متوجہ ہوئے اور فرماای: کیا تم نے کبھی کسی عورت کو دین کے بارے میں اس سے بہتر سوال کرتے سنا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمیں گمان بھی نہیں تھا کہ کوئی عورت اس درجہ تک پہنچ سکتی ہے۔ تب آپۖ ان (صحابیہ) کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم بھی سمجھ لو اور جو عورتیں تمہارے پیچھے رہ گئی ہیں انہیں بھی سمجھا دو کہ عورت کا اپنے شوہر کے ساتھ حسن معاشرت اکور اس موافقت و رضا مندی کے حصول کو کوشش مذکورہ (ساری عبادتوں) کے برابر ہے۔
کچھ میدان ایسے ہیں جن میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہونی چاہئے۔ مثلاً طب کا میدان ڈاکٹر سے لے کر نرس تک… پھر تعلیم و تدریس کا میدان۔
عورتوں کے لئے تعلیم کے تمام دروازے کھلے رکھنے چاہئیں۔ آج دنیا کی عورتیں فضائی تحقیقات کیلئے پروازیں کر رہی ہیں، مسلم عورتوں کو علم سے محروم رکھنا کتنی بڑی زیادتی ہے۔
علم دین کے متعلق بعض لوگوں کی فقہی کند ذہنی نے اسلام کے لئے بہت سی تنگیاں پیدا کیں اور اس کے دشمنوں کو اس کا گلا گھونٹنے کا موقع دیا۔
مجھے یاد ہے تقریباً ساٹھ برس پہلے جب میں اسکندریہ میں پڑھ رہا تھا تو جس کالج میں پرنسپل ڈاکٹر طہ حسن تھے اس کی آرٹس فیکلٹی میں انہوں نے طالبات کا سیکشن کھول دیا جس پر بڑی دے مچائی گئی پھر ایک طویل عرصہ کے بعد جامع ازہر نے بھی لڑکیوں کے لئے کالج کھولا۔
وجہ کیا تھی؟ اسلام کے نام نہاد ترجمانوں کی فقہی کند ذہنی۔ جب وہ کسی راستے میں آگے بڑھنے کے لئے آمادہ بھی ہوتے ہیں تو شکست خوردگی کے ساتھ۔
اسلام جب عورت کے بلند درجہ کی تائید کرتا ہے تو وہ مغربی تہذیب کی حیوانی پیش رفتوں سے اس کا تحفظ کرتا ہے۔ کیونکہ دین اسے باوقار بناتا ہے جبکہ مغربی تہذیب اسے کھولونا بناتی ہے۔
دین مدر عورت کے خلوت میں اکٹھا ہونے کو مسترد کرتا ہے۔
اکثر یہ سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ ڈائریکٹر وغیرہ قسم کے لوگوں کے لئے پرائیویٹ سکریٹری لڑکیاں ہی کیوں رکھی جاتی ہیں۔ عورتوں ہی کو کیوں ائر ہوسٹس بنایا جاتا ہے۔
عورتوں کو تو ایسے کاموں میں لگانا چاہیے جہاں کا ان کے وقار کا تحفظ ہوسکے۔
عورتوں کی گھریلو ذمے داریوں کے پیش نظر ان کے لئے ایسے کام ہونے چاہئیں جو آدھے وقت کے ہوں۔
عورتوں کو حقیر سمجھنے کا خیال مٹانے کی ضرورت ہے اور انہیں بلا وجہ مورد الزام بنانا بالکل احمقانہ ہے، جیسا کہ دین کے نام نہاد ترجمانوں کا رویہ ہوتا ہے۔
یہ کہنا کہ عورت ہی نے آدم کو جنت سے نکلوایا اس پر بہتان باندھنا ہے۔
اس طرح یہ گمان بھی جعلسازی ہے کہ عورت مرد کو جہنم کی طرف لے جانے والی ہے۔
اسلامی نظریہ تو یہ ہے جیسا کہ قرآن کریم اعلان کرتا ہے:
ترجمہ: میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ مرد ہو یا عورت تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔ (آل عمران ٩٠)
عزت آبرو کے سلسلے میں غیرت مندی بالکل بجا ہے لیکن آبرو کا تحفظ جیلر کی ذہنیت سے نہیں کیا جاسکتا۔
علم و تقویٰ کے ذریعہ عقل و ضمیر کی تشکیل اور لوہے کے پنجڑے میں جسموں کو قید کرنے کے درمیان بہت فرق ہے۔
اسلام نے عورت کو تعلیم دینے، عبادت کرنے اور ان دونوں کے ذریعہ روح و فکر کو جلا دینے کی طرف رہنمائی کی ہے۔
جیلر کی ذہنیت یہ ہوتی ہے کہ عورت نہ کسی وو دیکھ سکے نہ کوئی اسے دیکھ سکے۔
جب لوگوں نے گھوڑے اور گدھے کی سواری پر ہوائی جہاز اور کار کو ترجیح دی تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ انہوں نے اسلامی مواصلات کو حقیر سجھ کر ایسا کیا۔ موصلات کے ان ذرائع سے اسلام کا کیا تعلق تھا؟
جب لوگ ان روایات کو چھوڑتے ہیں جنہیں جیلر کی ذہیت نے بنایا تھا تو وہ اسلام کو نہیں بلکہ بعض لوگوں کے طریق زندگی کو چھوڑتے ہیں۔
فیصلہ کن صرف کتاب و سنت ہیں۔ پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ مسئلہ بعض لوگوں کی آیات و احادیث کے معنی کی سمجھ سے پیدا ہوتاہے۔
مسند احمد کی روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا ''میں نے جنت کو دیکھا تھا اسمیں اکثر غریب لوگ اور جہنم کو دیکھا تو اس میں اکثر مالدار اور عورتیں تھیں۔
عام صوفیوں نے حدیث کے پہلے حصہ کو تے لے لیا تو مال و دولت کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور دولت کو اتنا حقیر بنا کر پیش کیا کہ پچھلی صدیوں میں مسلمان دنیا کے فقیر ہو کر رہ گئے۔
دوسرے کوتاہ نظر لوگوں نے دوسرے حصہ کو لیا تو عورت کو لعنت کی چیز اور شیطان کا جال قرار دے دیا۔
معاملات کو سمجھنے میں یہ فکر بے وزن اور ایسے لوگ کتاب و سنت سے بیگا ہیں۔
افراط و تفریظ کے درمیان ایک تیسری لائن ہے جسے جاننا اور اختیار کرنا چاہئے۔ یہ لائن بیشتر مسلم معاشروں میں عورت کی حالت سے مطابقت نہیں رکھتی، نہ مغرب کی روایات سے میل کھاتی ہے۔
افلاطون نے اپنے بہترین شہر و تہذیب کے فلسفہ میں بھی عورتوں کو کھلونا ہی بنایا ہے، تب گندی تہذیب میں اس کا کیا حال ہوگا۔
دوسری طرف جیلر کی ذہنیت سے بھی پاکیزہ دل اور ترقی یافتہ ذہن والی قوم پروان نہیں چڑھ سکتی۔
اسلام کی صحیح تعلیمات ہی سے ایک ایسی دنیا تعمیر ہوسکتی ہے جس میں باہم ہمدردی اور تحفظ کام دور دورہ ہو۔
 کیا نقاب فرض ہے؟
دور اول میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب… جو پردہ کے سلسلے میں سختی کے لئے مشہور ہیں۔ ایک خاتنو شفاء بنت عبداللہ مخزومیہ کو مدینہ منورہ کے بازار کا قاضی مقرر فرماتے ہیں۔ یہہ ایک دینی و شہری منصب تھا جس کے لئے تجربہ اور قوت فیصلہ دونوں درکار تھے۔
ابن کثیر ''البدایة و النھایة'' میں نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر کے قتل کے بعد ان کے جانشین کے تقرر کے لئے حضرت عبدالرحمن بن عوف تین روز تک مردوں و عورتوں سے مشورہ کرتے رہے اور اس سلسلے میں کسی ایسے مرد یا عورت کو نہیں چھوڑا جسے رائے قائم کرنے کے قابل سمجھا جاتا تھا۔
عورتوں سے مشورہ کیا جاتا تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ رسولۖ نے بذات خود ام المومنین ام سلمہ سے اس وقت مشورہ کیا تھا جب صلح حدیبیہ کے وقت لوگ احرام کھولنے میں پہلو تہی کر رہے تھے۔
لیکن پچھلی صدیوں میں مسلمان عورت ان جاہلی روایات کا شکار ہو کر معنوی موت مر گئی جو دین کا حصہ نہیں تھی پھر جب جدید تذہیب اپنی اباجیت پرستی کے ساتھ سامنے آکر چیلنج کرنے لگی تو اہلِ دین کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اب کیا کریں۔ میں نے سیرت نبوی کے مطالبہ میں دیکھا ہے کہ اس وقت کا معاشرہ زیادہ وسعت اور رحم دلی کی تصویر پیش کرتا تھا بمقابلہ اس کے جو بعض لوگ پج مسلم معاشرہ کے تعلق سے پیش کرنا چاہتے ہیں اور جو وحشت انگیز ہے۔
مسلم کی روایت ہے کہ ایک فارسی پڑوسی بہت اچھا سالن تیار کرتا تھا ایک دن اس نے رسول ۖ کے لئے کھانا تیار کیا پھر دعوت دینے آگیا۔ آپۖ نے دریافت کیا اور یہ (یعنی حضرت عائشہ)؟ فارسی نے کہا نہیں۔ رسول ۖ نے فرمایا تب نہیں، یعنی میں تنہا نہیں چلوں گا۔ فارسی پھر واپس آیا اور دعوت دی اور پپ نے پھر دریافت کیا اور یہ (یعنی حضرت عائشہ)؟ اس نے کہا نہیں۔ آپۖ نے بھی انکار کر دیا۔ پھر وہ تیسری بار بلانے آیا۔ آپۖ نے پھر دریافت کیا اور یہ؟ فارسی نے کہا ہاں۔ تب آپۖ حضرت عائشہ کے ساتھ اس کے گھر تشریف لے گئے۔
بخاری کی روایت ہے کہ حضرت ابو سعدی ساعدی نے اپنی شادی کی مناسبت سے آپۖ کی اور آپۖۖ کے ساتھیوں کی دعوت فرمائی تو کھانا تیار کرنے والی اور اسے پیش کرنے والی وہی خاتون (دلہن) تھیں انہوں نے پتھر کے ایک برتن میں رات سے کچھ کھجوریں بھگو رکھی تھیں جب آپۖ کھانے سے فارغ ہوگئے تو خاتون نے اس میں اپنے ہاتھ سے پانی میں ملا کر آپ کو پینے کے لئے پیش کیا۔ گویا اس دعوت میں خدمت کا فرض دلہن ہی نے انجام دیا۔
ظاہر ہے کہ محدود سطح پر یہ میل جول شریعت کی ہدایات کے دائرے میں پروقار ماحول میں ہوا۔ اور پر وقار طریقہ چہرے اور ہتھیلیوں کے علاوہ پورے جسم کی ستر پوشی کا تقاضا کرتا ہے۔
میں نے حدیث کی صحیح ترین کتابوں میں تقریباً ایک درجن حدیثیں پڑھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں اپنے چہرے اور ہتھیلیاں رسول ۖ کے سامنے بھی کھلی رکھتی تھیں اور آپۖ نے کسی ایک کو بھی انہیں ڈھانکنے کا حکم نہیں دیا
اس کیب اوجود کم سمجھ لوگ پر وقار لباس میں ہونے کے باوجود عورتوں کو برا بھلا کہتے ہیں اگر وہ چہرے کھلے رکھیں۔  ان کے خیال میں عورت کا چہرہ، ہاتھ اور آواز تک ستر ہے۔ حضرت سعد بن خولہ کا انتقال دسویں ہجری سال میں ہوا ان کی بیوی حاملہ تھیں۔ عدت ختم ہونے سے پہلے ہی ولادت ہوگئی۔ چنانچہ انہوں نے عدل والا سوگ ختم کر دیا۔ ایک شخص ابولسنا بل نامی ملے تو انہوں نے اس پر نکیر کی اور کہا کہ شاید تم شادی کرنا چاہتی ہو، یہ چار مہینے دس بعد ہی ممکن ہے۔ وہ رسولۖ کے پاس آئیں اور یہ واقعہ بتایا آپۖ نے فرمایا: ولادت کے ساتھ عدت ختم ہوگئی۔ یہ واقعہ صحیحین اور مسند احمد میں موجود ہے۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہ واقعہ آیت حجاب کے نزول سے پہلے کا ہے۔
امت اسلامیہ پر اسلام کے علاوہ کوئی اور چیز تھوپی جا رہی ہے اور ایسا علمی شواہد کی بنیاد پر نہیں بلکہ ذاتی محرکات کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔
یہاں امہات المومنین کے نقشِ قدم پر چلنے کی بات کہی جاتی ہے۔ اگر پیروی ہی مطلوب ہے تو رسولۖ اور آپ کے صحابہ نے ایسا کیوں نہیں کرایا اور کیوں چہروں کو بے اعتراض کے کھلا رہنے دیا۔
حقیقت یہ ہیکہ نبوی گھرانے کا انتظام خاص حالات کے تحت تھا خود قرآن نے کہا ہے:
ترجمہ: اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ (الاحزاب: ٣٢)
آپۖ کے بعد آپۖ کی ازواج مطہرات کے لئے شادی کی حرمت اور دہری جزا و سزا انہیں کے ساتھ خاص ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ ہر طرح کے لوگ حضورۖ کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے بعض بدوئوں میں جاہلت کے اثرات باقی تھے تو وہ عورتوں پر نگاہ ڈالنے کی کوشش کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے اپنے نبیۖ کی عزت و تکریم کے لیء سورہ احزاب میں حجاب کی آیت نازل فرمائی جس سے آپۖ کی ازواج مطہرات کے پاس جانے کی ممانعت ہوگئی اس طرح اب انہیں کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔
ترجمہ: ازواج نبیۖ کے لئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ان کے باپ، ان کے بیٹے، ان کے بھائی، ان کے بھتیجے، ان کے بھانجے، ان کے میل جول کی عورتیں اور ان کے مملوک ان کے گھروں میں آئیں اور اور اللہ سے ڈرو۔ ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے۔(احزاب: ٠٠)
ظاہر ہے یہ انتظام امہات المومنین کے ساتھ خاص تھا اس کے نزول کیب عکد مومن عورتیں کھلے چہروں کے ساتھ حنین میں جنگ کرتی ہوئی نظر آئیں اور مسجد میں  بہت سے موقعوں پر نظر آئیں۔ کسی نے ان پر نکیر نہیں کی۔ بعض لوگ عورتوں کے مردوں کو دیکھنے پر مطلقاً پابندی لگاتے ہیں اور یہ دلیل بناتے ہیں کہ رسولۖ نے اپنی بیویوں کا عبداللہ ابن ام مکتوم کو دیکھنا نا پسند فرمایا تھا۔ حافظ ابن حجر جیسا محدوث کہتا ہے کہ اس کی خاص وجہ تھی اور یہ کہ عبداللہ اندھے تھے اچھی طرح کپڑا پہننا  اور پورا بدن ڈھانکنا نہیں آتا تھا۔
یہ روایت چونکہ دیگر صحیح روایتوں کے مخالف تھی اس لئے ابن حجر کو یہ تاویل کرنی پڑی ان خجر نے اس حدیث کو''کیا تم بھی اندھی ہو'' اپنے خاص اسلوب میں مسترد کیا، یعنی سند سے صرف نظر کر کے متن کی تاویل کی، جبکہ ابن عربی اس روایت کو سند اور متن دونوں اعتبار سے مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حدیث کے ایک راوی بنیان حضرت ام سلمہ کے خادم ضرور تھے لیکن اہلِ علم کے درمیان معروف نہیں۔  اگر ان کی روایت بخاری کی حضرت عائشہ کے حبشیوں کا کھیل دیکھنے والی روایت کے خلاف جاتی ہے تو دوسرے واقعہ کے بھی خلاف ہے جس کی روایت مسلم نے کی ہے کہ حضورۖ نے ابن مکتوم کی چچا زاد بہن کو ان کے پاس عدت کی مدت گزارنے کا حکم دیا تھا۔
مسلم کی روایت کے مطابق فاطمہ بنت قیس کو ان کے شوہر عمرو بن حفص نے طلاق دے دی آپۖ نے انہیں ام شریک کے گھر عدت گزارنے کے لئے کہا پھر فرمایا کہ ام شریک کے پاس ہمارے ساتھی آتے جاتے ہیں (ام شریک ایک مالدار اور شاہ خرچ انصاری عورت تھیں ان کے پاس یہاں مہمان بھی کثرت سے ٹھہرتے رہتے تھے) ہوسکتا ہے تمہارا دوپٹہ گر جائے یا پنڈلیوں سے کپڑا ہٹ جائے تو لوگوں کو نظر آجائے اور تمہیں ناپسند ہو اس لئے اپنے چچا زاد بھائی ابن ام مکتوب کے پاس منتقل ہو جائو کہ اگر دوپٹہ بھی اتار دو گی تو وہ تمہیں نہیں دیکھ سکیں گے۔
شیخ ناصر الدین البانی کہتے ہیں کہ حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ چہرہ ستر نہیں ہے کیونکہ آپ نیفاطمہ بنت قیس کے لئے یہ جائز قرار دیا کہ لوگ انہیںا س حالت میں دیکھ لیں تو کوئی حرج نہیں کہ ان کے سر پر دوپٹہ ہو گویا سر کی طرح چہرہ ڈھانکنا واجب نہیں ہے۔ یہ واقعہ آپۖ کی زندگی کے پخرف حصہ کا ہے یعنی ٩ھ حجاب کی آیت کے نزول کے بعد کا۔
دسویں سال ہجری میں یعنی حجاب کی آیت کے نزول کے چھ برس بعد خثعمیة خاتون کا واقعہ پیش آیا جو ایک خوبصورت عورت تھیں اور حجةالوداع کے موقعہ پر قربانی کے دن آپۖ سے مناسکِ حج کے بارے میں کچھ دریافت کرنے آئیں۔ اس وقت آپۖ کے پیچھے سواری پر حضرت فض ابن عباس بیٹھے ہوئے تھے۔ خاتون کے حسن نے انہیں اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ مسند احمد میں حضرت فضل کا بیان ہے کہ میں ان کی طرف دیکھنے لگا۔ رسولۖ نے میرا چہرہ خاتون کے چہرے کی طرف سے پھیر دیا۔ آپۖ نے ایسا تین بار فرمایا کیونکہ میں باز نہیں آرہا تھا۔
کسی نے یہ روایت نہیں کی کہ حضورۖ نے چہرہ کھولنے کی وجہ سے خاتون کو ڈانٹا ہو یا بے شرمی اور فتنہ انگیزی کا الزام لگایا ہو لیکن شاہ پرست لوگ شاہ سے بھی زیادہ شاہ پرستی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ ان صحیح ححدیثوں کو ایک طرف لپیٹ کر ڈال دیتے ہیں اور ایسی ایسی بات بتانے لگتے ہیں کہ عورت سر سے پیر تک ڈھکی رہے، نہ اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے، نہ اس کی آواز سنی جائے کہ یہ آواز بھی ستر ہے اور وہ کہیں نکلے تو ایک آنکھ چھپائے رہے صرف ایک آنکھ کھول کر دیکھ سکتی ہے۔
اس غلو نے زمانے گزرنے کے ساتھ برے سماجی اثرات پیدا کئے جن سے عورت کی شخصیت کا قتل ہی نہیں ہوا، اسلام بھی بدنام ہو رہا ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسولۖ کی ازواج مطہرات کی پیروی میں عورت چہرے پر بھی نقاب ڈالے رہے تو کوئی حرج نہیں۔
ہم عرض کریں گے: اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ عورت پر اس نمونہ کی پروی میں شوہر کے انتقال کے بعد دوسری شادی پر بھی پابندی لگا دی جائے!!
ہم صرف صحیح اسلامی لائن کی پابندی چاہتے ہیں۔ نہ مغرب کی نمائش نہ مشرقی عورت کی کشی۔
اللہ تعالی کے لئے غضب و غیرت سر آنکھوں پر لیکن اضافی رووایات کے لئے غیرت مندی احمقانہ بات ہے۔
ہم پھر دہراتے ہیں کہ کتاب و سنت کی نصوص سر آنکھوں پر۔ کسی فقہی رائے کو تقدس حاصل نہیں۔ ہر ملک کے مسلمانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس فقہی رائے کو اپے لئے مناسب حال سمجھیں اسے اپنا لیں۔ کسی رائے کا چھوڑنا دین کو چھوڑنا نہیں بلکہ حقیقت تو یہ کہ انسانی میدان میں مسلمانوں میں رائج بہت سی چیزیں دین کے خلاف ہیں۔
اسی لئے میں اسے مسترد کرتا ہوں کہ اس زمانے میں اسلام کو اس طرح پیش کیا جائے کہ وہ نقاب عورت کی گواہی نہ ماننے، اسے کار چلانے کی اجازت نہ دینے وغیرہ ہی کا نام ہے اگرچہ میں اس پر زور دیتا ہوں کہ عورت کا کام اپنے خاندان میں اس کے تمام دیگر کاموں سے زیادہ اہم اور بنیادی ہے۔
تعداد ازدواج کی حقیقت کیا ہے؟
تعداد ازدواج کے سلسلے میں پہلا سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کے بر خلاف تعداد ازدواج کا موجد ہے؟ سارے ہی آسمانی مذاہب نے اس کی اجازت دی تھی۔ سب اسلام ہی سے کیوں جواب طلب کیا جاتا ہے۔
توریت میں کئی بیویاں رکھنے پر پابندی نہیں ہے۔ حضرت سلیمان کے گھر میں بیویوں اور لونڈیوں کی تعداد ایک ہزار تھی۔
حضرت عیسیٰ کے شاگردوں کی لکھی ہوئی انجیلوں میںب ھی اس پر کوئی پابندی نہیں۔ جو پابندی بعد میں لگائی گئی وہ مذہبی قانون نہیں حکومتی قانون تھا یا پھر کلیسا نے اپنے اجہتاد سے کیا۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ اب جب دیگر مذابہ نے اس پر پابندی لگاد ی ہے تو اسلام کوبھی لگا دینی چاہئے۔ یہاں دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی یہ مسئلہ حقیقی نوعیت رکھتا ہے۔ کتنے مسلمانوں کے گھرو میں ایک سے زیادہ بیویاں ہیں؟ مسلمانوں کی آبادی میں عورتوں کا تناسب ویسے بھی ابھی تک مردوں سے کم ہے۔ تب کہاں سے انہیں زیادہ بیویاں مل سکتی ہیں۔ پھر کیا مسلمانوں کی مالی حالت بھی ایسی ہے کہ وہ اتنا خرچ برداشت کرسکیں۔
سوال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کیا سارے یا اکثر مرد ایک بیوی ہی پر اکتفا کرتے ہیں اور کسی دوسری عورت سے رابطہ قائم نہیں کرتے؟ بلکہ مغربی تہذیب سے کے دلدادگان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ انہوں نے بہت ساری دیگر عورتوں سے طویل مدتی یا کم مدت کے لئے تعلقات قائم نہیں کیے؟
آخر دوسری عورت کو دوست کی حیثیت سے قبول کرنا پسندیدہ اور بیوی کی حیثیت سے قبول کرنا جرم ہے؟ کہ اگر اس سے اولاد پیدا ہوت و وہ بے باپ کے ماری، ماری پھرے، اپنے حقیقی باپ سے انتساب بھی نہ کرسکے؟ آخر دوسری عورت سے لطف اندوز ہونا جائز اور اس کی ذمے داری باقاعدہ قبول کرنا اور اسے وراثت وغیرہ حقوق دینا ناجائز ہے؟
ہمارے اہل کتاب بھائیوں نے حرام و حلال کے پیمانے ہی بدل لئے ہیں اور اپنی خواہشات کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ جنسی اعتبار سے انہوں نے سب کچھ یہاں تک کہ ہم جنسی تک جائز کر رکھی ہے۔
جہاں تک طلاق کی اجازت کا سوال ہے تو ذرا یہ روایات دیکھئے۔
حضرت عمر سے ایک آدمی نے کہا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے۔ انہوں نے پوچھا کیوں؟ اس نے جواب میں اسے پسند نہیں کرتا۔ حضرت عمر نے کہا کیا تمامگ ھرانے محبت و پسند کی بنیاد پر ہی برقرار ہیں؟ تب وفاداری اور برداشت کیا ہوئی؟
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو ایوب نے اپنی بیوی کو طلاق دینی چاہی، رسول اللہۖ سے اجازت طلب کی۔ آپۖ نے فرمایا یہ گناہ ہوگا تب انہوںنے طلاق کا ارادہ ترک کر دیا۔
ایسی ہی روایت حضرت ابو طلحہ کے بارے میں بھی ہے اور اس کی بنیاد اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لئے بہانے کی تلاش نہ کرو بے شک اللہ بڑا اور بالا تر ہے۔
کبھی طلاق کے بغیر کوئی چارہ کار ہی باقی نہ رہ جاتا کہ شیشہ ٹوٹنے کے بعد جڑ نہیں پاتا۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر معدودے چند مسلمان تعداد ازدواج کے سلسلے میں غلط طرز عمل اختیار کرتے ہیں اور عدل و انصاف کی پابندی یا اخراجات کی کمی کے باوجود ایک سے زیادہ شادی کر لیں تو اس کا دفاع کیا جائے۔ یہ بالکل ناقابلِ قبول ہے تعداد ازدواج کے لئے اسلام نے سخت ترین شرطوں کے ساتھ اجازت دی ہے اور اس طرح کے سماجی مسائل کا حل ضمیر کی بیداری اور اخلاق و کردار کی سلامتی سے تعلق رکھتا ہے۔ قانون سے نہیں۔
ہندوستان کے معروف صاحبِ قلم مولانا وحید الدین خاں لکھتے ہیں:
قرآن میں اجتماعی زندگی کے بارے میں جو احکام دئیے گئے ہیں، ان میں سے ایک حکم وہ ہے جو تعداد ازواج (چار عورتوں تک نکاح کرنے) کے بارے میں ہے۔ اس سلسلہ میں آیت کے الفاظ یہ ہیں:
ترجمہ: اگرت م کو اندیشہ ہو کہ تم یتیم بچوں کے معاملہ میں انصاف نہ کرسکو گے تو (بیوہ) عورتوں میں جو تم کو پسند ہوں ان میں دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو۔ اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ تم عدل نہ کرسکو گے تو ایک ہی نکاح کرو۔ (النسائ:٣)
یہ آیت غزوہ احد (شوال ٣ھ) کے بعد اتری۔ اس کا شانِ نزول یہ ہے کہ اس جنگ میں ٧٠ مسلمان شہید ہوگئے تھے۔ اس کی وجہ سے مدینہ کی بتی میں اچانک ٧٠ گھر مردوں سے خالی ہوگئے۔ نتیجتاً یہ صورتحال پیش آئی کہ وہاں سے بہت سے بچے یتیم اور بہت سی عورتیں بیوہ گئیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ اس معاشرتی مسئلہ کو کس طرح حل کیا جائے۔ اس وقت قرآن میں مذکورہ آیت اتری اور کہا گیا کہ جو لوگ استطاعت رکھتے ہوں، وہ بیوہ عورتوں سے نکاح کرکے یتیم بچوں کو اپنی سر پرستی میں لے لیں۔
اپنے الفاظ اور اپنے شانِ نزول کے اعتبار سے بظاہر یہ ایک وقتی حکم نظر آتا ہے۔ یعنی اس کا تعلق اس صورتحال سے ہے جنگ کے نتیجہ میں آبادی کے اندر عورتوں کی تعداد زیادہ ہوگئی تھی اور مردوں کی تعداد کم۔ مگر قرآن اپنے اطلق کے اعتبار سے ایک ابدی کتاب ہے۔ قرآن کے اعجاز کا پہلو یہ بھی ہے کہ وہ زمانی زبان میں ابدی حقیقت بیان کرتا ہے۔ اس کا یہ حکم بھی اس کی اسی صفت خاص کا مظہر ہے۔
زیادہ شادی کا معاملہ صرف مرد کی مرضی پر منحصر نہیں اسکی لازمی شرط (Insecapable Condition) یہ ہے کہ معاشرہ میں زیادہ عورتیں بھی موجود ہوں۔ اگر زمین پر ایک ہزار ملین انسان بستے ہوںاور ان میں ٥٠٠ ملین مرد ہوں اور ٥٠٠ ملین عورتیں تو ایسی حالت میں مردوں کے لئے ممکن ہی نہ ہوگا کہ وہ ایک سے زیادہ نکاح کریں۔ ایسی حالت میں ایک سے زیادہ نکاح صرف جبراً کیا جاسکتا ہے اور جبری نکاح اسلام میں جائز نہیں۔ اسلامی شریعت میں نکاح کے لئے عورت کی رضا مندی ہر حال میں ایک لازمی شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس طرح عملی طور پر دیکھئے تو قرآن کے مذکورہ حکم کی تعمیل صرف اس وقت ممکن ہے جب سماج میں وہ مخصوص صورت حال پائی جائے جو احد کے بعد مدینہ میں پائی جا رہی تھی، یعنی مردوں اور عورتوں کی تعداد میں نابرابری۔ اگر یہ صورتحال نہ پائی جا رہی ہو تو قرآن کا حکم عملاً ناقابلِ نفاذ ہوگا۔ مگر انسانی سماج اور انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قدیم مدینہ کی صورتحال محض وقتی صورت حال نہ تھی۔ یہ ایک ایسی صورتحال تھی جو اکثر حالات میں زمین پر موجود رہتی ہے۔ مذکورہ ہنگامی حالت ہی ہماری دنیا کی عموملی حالت ہے۔ یہ قرآن کے نازل کرنے والے کے عالم الغیب ہونے کا ثبوت ہے کہ اس نے اپنی کتاب میں ایک ایسا حکم دیا جو بظاہر ایک ہنگامی حکم تھا مگر وہ ہماری دنیا کے لئے ایک ابدی حکم بن گیا۔
تعداد کی نابرابری:
اعداد و شمار بتاتے ہیں۔ کہ بااعتبار پیدائش عورت اور مرد کی تعداد تقریباً یکساں ہوتی ہے۔ یعنی جتنے بچے تقریباً اتنی ہی بچیاں مگر شرح اموات (Mortality) کے جائزہ سے معلوم ہوا ہے کہ عورتوں کے مقابلہ میں مردوں کے درمیان کی شرح زیادہ ہے۔ یہ فرق بچپن سے لے کر آخر عمر تک جاری رہتا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (١٩٨٤) کے مطابق عموملی طور پر موت کا خطرہ عمر کے ہر محلہ میں عورتوں کے لئے کم پایا گیا ہے اور مردوں کے لئے زیادہ:
In general, the risk of death at any given age is less for females than for males (VII/37)
اکثر حالات میں سماج کے مندر عورتوں کی تعداد زیادہ ہونا اور مردوں کی تعداد کا کم ہونا مختلف اسباب سے ہوتا ہے۔ مثلاً جب جنگ ہوتی ہے تو اس میں زیادہ تر صرف مرد مارے جاتے ہیں۔ پہلی عالمی جنگ (1914-18ئ) میں آٹھ ملین (اسی لاکھ) سے زیادہ فوجی مارے گئے۔ شہری لوگ جو اس جنگ میں ہلاک ہوئے وہ اس کے علاوہ ہیں۔ زیادہ تر مرد تھے۔ دوسری عالمی جنگ (1939-45) میں ساڑھے چھے کروڑ آدمی ہلاک ہوئے یا جسمانی طور پر ناکارہ ہوگئے۔ یہ سارے لوگ زیادہ تر مرد تھے۔ عراق، ایران جنگ (1979-1988) میں ایران کی 82ہزار عورتیں بیوہ ہوگئیں۔ عراق میں ایسی عورتوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہے جن کے شوہر اس دس سالہ جنگ میں ہلاک ہوئے۔
اسی طرح مثال کے طور پر جیل اور قید کی وجہ سے بھی سماج میں مردوں کی تعداد کم  اور عورتوں کی زیادہ ہو جاتی ہے۔ امریکہ میں ہر روز تقریباً تیرہ لاکھ آدمی کسی نہ کسی جرم میں پکڑے جاتے ہیں ان میں سے ایک تعداد وہ ہے جو لمبی مدت کے لئے جیل میں ڈال دی جاتی ہے۔ ن سزا یافتہ قیدیوں میں بھی ٩٧فیصد مرد ہی ہوتے ہیں۔
اسی طرح جدید صنعتی نظام نے حادثات کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔ موجودہ زمانہ میں حادثاتی موتیں روز مرہ کا معمول بن گئی ہیں۔ سڑک کے حادثے، ہوائی حادثے اور دوسرے مشینی حادثے ہر ملک میں اور ہر روز ہوتے رہتے ہیں۔ جدید صنعتی دور میں یہ حادثات اتنے زیادہ بڑھ گئے ہیں کہ اب سیفٹی انجینئرنگ (Safety Engeneering) کے نام سے ایک مستقل فن وجود میں آگیا ہے۔ ١٩٦٧ء کے اعداد و شمار کے مطابق، اس ایک سال میں پچاس ملکوں کے اندر مجموعی طور پر ٠٠٠،٧٥ حادثاتی موتیں واقع ہوئیں (EB-16/37) یہ سب زیادہ تر مرد تھے۔
صنعتی حادثات کے  موتوں میں سیفٹی انجینئرنگ کے باوجود پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ مثال کے طور پر ہوائی حادثات جتنے ١٩٨٨ء میں ہوئے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح تمام صنعتی ملکوں میں مستقل طور پر اسلحہ سازی کے تجربات ہو رہے ہیں۔ ان میں برابر لوگ ہلاک ہوتے رہتے ہیں۔ ان ہلاک شدگان کی تعداد کبھی نہیں بتای جاتی تاہم یہ یقینی ہے کہ ان میں بھی تمام تر صرف مرد ہی ہیں جو ناگہانی موت کا شکار ہوتے ہیں۔
اسی طرح کے مختلف اسباب کی بنا پر عملی صورت حال اکثری یہی ہوتی ہے کہ سماج میں عورتوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہو اور مردوں کی تعداد نسبتاً کم ہوجائے۔ امریکہ کی سوسائٹی نہیات ترقی یافتہ سوسائٹی سمجھی جاتی ہے مگر وہاں بھی یہ فرق پوری طرح پایا جاتا ہے۔ ١٩٨٧ء کے اعداد و شمار کے مطابق، امریکہ کی آبادی کا ہر مرد شادی دشہ ہو جئے تو اس کے بعدب ھی امریکہ میں تقریباً ٧٨ لاکھ عورتیں ایسی باقی رہیں گی جن کے لئے ملک میں غیر شادی شدہ مرد موجود نہ ہوں گے جن سے وہ نکاح کر سکیں۔
ایک سے زیادہ نکاح کیلئے صرف یہی کافی نہیں کہ آبادی کے اندر عورتیں زیادہ تعداد میں موجود ہوں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی لازمی طور پر ضروری ہے کہ جس عورت سے نکاح کرنا مططوب ہے وہ خود بھی آزادانہ مرضی سے اس قسم کے نکاح کے لئے پوری طرح راضی ہو۔ اسلام میں عورت کی رضا مندی مسلمہ طور پر نکاح کے لئے شرط ہے۔ کسی عورت سے زبردستی نکاح کرنا جائز نہیں۔ اسلام کی نمائندہ تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسی مثال نہیں ہے جب کسی مرد کو یہ اجازت دی گئی ہو کہ وہ کسی عورت کو جبراً اپنے نکاح میں لے آئے۔
حدیث میں آیا ہے کہ کنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لے لی جائے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ ایک لڑکی رسولۖ کے پاس آئی اور کہا کہ اس کے باپ نے اس کی مرضی کے خلاف اس کا نکاح کر دیا ہے۔ آپ نے اس کو اختیار دیا کہ چاہے تو نکاح کو باقی رکھے اور چاہے تو اس کو توڑ دے۔
حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ بریرہ کا شوہر ایک سیاہ فام غلام تھا۔ اس کا نام مغیث تھا، گویا کہ میں مغیث کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ مدینہ کے راستوں میں بریرہ کے پیچھے چل رہا ہے۔ وہ رو رہا ہے اور اس کے آنسو اس کی داڑھی تک بہہ رہے ہیں۔ رسولۖ نے عباس سے کہا کہ اے عباس! کیا تم کو بریرہ کے ساتھ مغیث کی محبت اور مغیث کے ساتھ بریرہ کی نفرت پر تعجب نہیں؟ پھر رسولۖ نے بریرہ سے کہا کہ کاش تم اس کی طرف رجوع کرلو۔ بریرہ نے کہا کہ آپ مجھ کو اس کا حکم دیتے ہیں؟ آپۖ نے فرمایا کہ صرف سفارش کر رہا ہوں۔ بریرہ نے کہا: مجھے اس کی حاجت نہیں (بخاری)
تعداد ازدواج کا ایک واقعہ وہ ہے جو حضرت عمر فاروق کی خلافت کے زمانہ میں پیش آیا۔ ایک بیوہ خاتون ام ابان بن عتبہ کو چار مسلمانوں کی طرف سے نکاح کا پیغام ملا جو سب کے سب شادی شدہ تھے۔ ان چار حضرات کے نام یہ ہیں عمر بن الخطاب، علی بن ابی طالب، زبیر اور طلحہ، ام ابان نے طلحہ کا پیغام قبول کرلیا اور باقی تینوں کے لیے انکار کر دیا۔ اس کے بعد ام ابان کا نکاح طلحہ سے کر دیا گیا۔
یہ واقعہ مدینو (اسلامی دارالسلطنت) میں ہوا۔ جن لوگوں کے پیغام کو رد کیا گیا، ان میں وقت کے امیر المومنین کا نام بھی شامل تھا مگر اس پر کسی نے تعجب یا بیزاری کا اظہار نہیں کیا۔ اور نہ اس بنا پر وہاں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام میں عورت کو اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ یہ عورت کا ایک ایسا حق ہے جس کو کوئی بھی اس سے چھین نہیں سکتا حتی کہ وقت کا حکمراں بھی نہیں۔
ان احکام اور واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں چار کی حد تک نکاح کرتنے کی اجازت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی مرد چار عورتوں کو پکڑ کر اپنے گھر میں بند کرلے۔ یہ دوطرفہ رضا مندی کا معاملہ ہے۔وہی عورت کسی شادی شدہ مرد کے نکاح میںلائی جاسکتی ہے جو خود اس کی دوسری یا تیسری بیوی بننے پر بلا اکراہ راضی ہو اور جب یہ معاملہ تمام تر عورت کی رضا مندی سے انجام پاتا ہے تو اس پر کسی کو اعتراض کرنے کا کیا حق؟ موجودہ زمانہ میں آزادی انتخاب Freedom Of choiceکو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اسلامی قانون میں یہ قدر پوری طرح موجود ہے۔ البتہ ''مساواتِ نسواں'' کے علم بردار آزادیٔ انتخاب کو پابندیٔ انتخاب کے ہم معنی بنا دینا چاہتے ہیں۔
مسئلہ کا حل نہ کہ حکم:
مذکورہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عورت اور مرد کی تعداد میں برابری ہماری دنیا کا ایک مستقل مسئلہ  ہے۔ وہ جنگ کی حالت میں بھی پایا جاتا ہے اور جنگ نہ وہنے کی حالت میں بھی۔ اب سوال یہ ہے کہ جب دونوں صنفوں کی تعداد میں نابرابری ہے تو اس نابرابری کے مسئلہ کے کس طرح حل کیا جائے۔ ایک زوجگی کے اصول پر عمل کرنے کے نتیجہ میں جن بیوہ یا غیر بیوہ عورتوں کو شوہر نہ ملے وہ اپنی فطرت کے تقاضے پورے کرنے کے لئے کیا کریں؟ وہ سماج میں کس طرح اپنے لئے ایک با عزت زندگی حاصل کریں؟
ایک طریقہ وہ ہے جو ہندوستان کی روایات میں بتایا گیا ہے یعنی ایسی (بیوہ) عورتیں اپنے آپ کو جلا کر اپنے وجود کو ختم کرلیں تاکہ نہ ان کا وجود رہے اور نہ ان کے مسائل۔ یا پھدر ایسی عورتیں گھر سے محروم ہو کر سڑکوں کی بے کس زندگی گزارنے پر راضی ہو جائیں۔ اس اصول پر عمل کرنے کی بنا پر ہندو سماج کا کیا حال ہوا ہے اس کی تفصیل جاننا ہو تو انڈیا ٹوڈے (١٥نومبر ١٩٨٧ئ) کی ٨ صفحات کی با تصویررپورٹ ملاحظہ فرمائیں جو اس بامعنی عنوان کے تحت شائع ہوئی ہے کہ ''بیوائیں، انسانیت کا برباد شدہ ملبہ Widows: Wrecks of humanity''
اس حل کے بارے میں یہاں کسی مزید گفتگو کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ مجھے یہ امید نہیں کہ موجودہ زمانہ میں کوئی با ہوش آدمی اس طریقہ کی وکالت کرسکتا ہے یا کسی بھی درجہ میں وہ اس کو مذکورہ مسئلہ کا حل سمجھ سکتا ہے۔
دوسری صورت وہ ہے جو مغربی ملکوں کی ''مہذب سوسائٹی'' میں رائج ہے یعنی کسی ایک مرد کی دوسری منکوحہ بیوی بننے ضر راضی نہ ہونا البتہ بہت سے مردوں کی غیر منکوچہ بیوی بن جانا۔
دوسری عالمی جنگ میں یورپ کے کئی ملک لڑائی میں شریک تھے مثلاً جرمنی، فرانس، انگلینڈ وغیرہ۔ ان میں مرد بڑی تعاد میں مارے گئے۔ چنانچہ جنگ کے بعد مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان ملکوں میں جنسی بے راہ روی عام ہوگئی یہاں تک کہ بہت سے بے شوہر عورتوں کے گھروں کے سامنے اس قسم کے بورڈ لکھے ہوئے نظر آنے لگے کہ رات گزارنے کے لیے ایک مہمان چاہئے Wanted an evening guestیہ صورتحال مغرب میں جنگ کے بعد مختلف صورتوں میں بدستور باقی ہے۔ اب اس کو باقی رکھنے کا سبب زیادہ تر صنعتی اور مشینی حادثات ہیں جس کی تفصیل اوپر درج کی گئی۔
غیر قانونی تعداد ازواج:
جن قوموں میں تعداد ازواج کو ناپسند کیا جاتا ہے ان کو اس کی یہ قیمت دینی پڑی کہ ان کے یہاں اس سے بھی زیادہ ناپسندیدہ ایک چیز رائج ہوگئی جس کو مسٹریس (Mistress) کہا جاتا ہے انن قوموں کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اس فطری عمل کو روک سکیں جس کے نتیجہ میں اکثر معاشرہ میں عورتوں کی تعداد زیادہ اور مردوں کی تعداد کم ہو جاتی ہے۔ ایک طرف آبادی کے تناسب میں یہ فرق اور دوسری طرف تعداد ازواج پر پابندی، اس دو طرفہ مسئلہ نے ان کے یہاں مسٹریس کی برائی (بالفاظ دیگر، غیر قانونی تعداد ازواج) کو پیدا کر دیا۔
مسٹریس (Mistress) کی تعریف ویبسٹرسٹ ڈکشنری  (Webster's Dictionary) میں یہ کی گئی ہے کہ وہ عورت جو کسی مرد سے جنسی تعلق رکھے، اس کے بغیر کہ اس سے اس کا نکاح ہوا ہو:
A woman who had sexual intercourse with and often supperted a man for a more or less extended period of time without being married to him: paramour
مسٹریس کا یہط ریقہ آج بشمول ہندوستان، تمام ان لمکوں میں رائج ہے جہاں تعداد ازواج پر قانونی پابندی ہے یا سماجی طور پر اس کو برا سمجھا جاتا ہے۔ ایسی حالت میں اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ تعداد ازواج کو اختیار کیا جائے یا نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آبادی میں عورتوں کی غیر مناسب تعداد کو کھپانے کے لئے قانونی تعداد ازواج کا طریقہ اختیار کیا جائے، یا غیر قانونی تعداد ازواج کا۔
اسلامی طریقہ:
اس کے بعد وہ طریقہ ہے جو اسلامی شریعت میں اس مسئلہ کے حل کے لئے بتایا گیا ہے کہیعنی مخصوص شرائط کے ساتھ کچھ مردوں کے لئے ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت۔ تعداد ازواج کا یہ اصول جو اسلامی شریعت میں مقرر کیا گیا ہے، وہ در اصل عورتوں کو مذکورہ بالا قسم کے بھیانک انجام سے بچانے کے لئے ہے۔ بظاہر اگرچہ یہ ایک عام حکم ہے، لیکن اگر اس حیقت کو سامنے رکھئے کہ عملی طور پرکوئی عورت کسی مرد کی دوسری یا تیسری بیوہ بننے پر ہنگامی حالات ہی میں راضی ہوسکتی ہے نہ کہ معمول کے حالات میںخ تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ حکم در اصل ایک سماجی مسئلہ کے حل کے طور پر واضح کیا گیا ہے۔ وہ فاضل عورتوں کو جنسی آوارگی سے بچا کر معقول اور مستحکم خاندانی زندگی گزارنے کا ایک انتظام ہے بالفاظ دیگر یہ یک زوجگی کے مقابلہ میں تعداد ازواج کو اختیار کرنے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ تعداد ازواج اور جنسی بربادی کے درمیان انتخاب کا مسئلہ پیدا ہونے کی صورت میں تعداد ازواج کو اختیار کرنا ہے۔
تعداد ازواج کے حکم کو اگر مجرو طور پر دیکھا جائے تو وہ ایک ایسا حکم معلوم ہوگا جو مردوں کی موافقت میں بنایا گیا ہو لیکن اگر اس کو سماج کی عملی صورتحال کے اعتبار سے دیکھئے تو خود عورتوں کی موافقت میں ہے۔ وہ عورتوں کا مسئلہ ایک زیادہ معقول اور فطری بندوبست (Arrangement) ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
اسلام میں تعدادا ازواج کی اجازت مردوں کی جنسی خواہش کی تکمیل کے لئے نہیں ہے۔ یہ در اصل ایک مسئلہ کو حل کرنے کی عملی تدبیر ہے۔ مردوں کے لئے ایک سے زیادہ نکاح کرنا اسی وقت ممکن ہوگا جب آبادی میں مردوں کے مقابلہ میں عورتیں زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہوں۔ اگر عورتوں کی تعداد نسبتاً زیادہ نہ ہو تو اس حکم پر عمل کرنا سرے سے ممکن نہ ہوگا۔ پھر کیا اسلام مردوں کی خواہش کی تکمیل کے لئے ایک ایسا اصول بتاسکتا ہے جو سرے سے قبالِ حصول اور قابلِ عمل ہی نہ ہو۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (١٩٨٤ئ) نے بجا طور پر کلکھا ہے کہ تعداد ازواج کے اصول کو اختیار کرنے کی ایک وجہ کسی تناسب میں عورتوں کی زیادتی (Suplus of women) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو قومیں تعداد ازواج کی اجازت دیتی ہیں یا اس کو پسند کرتی ہیں ان میں بھی مردوں کی بہت بڑی اکثریت فاضل عورتوں کی محدود تعداد کی وجہ سے ایک ہی بیوی پر اکتفا کرتی ہے:
Among most peoples who permit of prefer it the large majority of men live in monogamy becase of the limited number of women(VII/97)
اسلام میں ایک سے زیادہ بیوی رکھنے کی اجازت بطور آئیڈیل نہیں ہے۔ یہ درحقیقت ایک عملی ضرورت (Practical Reason) کی وجہ سے ہے اور وہ یہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آبادی میں مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس زیادہ تعداد کے باعزت حل کے لئے تعداد ازواج کا اصول مقرر کیا گیا ہے یہ ایک عملی حل ہے نہ کوئی نظریاتی آئیڈیل۔
خلاصۂ کلام:
وپر جو بحث کی گئی، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابتدائی پیدائش کے اعتبار سے مرد اور عورت اگرچہ یکساں تعداد میں پیدا ہوتے ہیں مگر بعد میں پیش آنے والے مختلف اسباب کی بنا پر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ معاشرہ میں مردوں کی تعداد کم ہو جاتی ہے اور عورتوں کی تعداد زیادہ۔ سوال یہ ہے کہ اس مئلہ کا حل کیا ہو؟ جنسی نابرابری کی ناگزیر صورتحال میں دونوں جنسوں کے درمیان صحت مند تعلق کس طرح قائم کیا جائے؟
یک زوجگی (ایک مرد، ایک عورت) کے اصول نکاح پر عمل کرنے کی صورت میں لاکھوں کی تعداد میں ایسی عورتیں باقی رہتی ہیں جن کے لئے معاشرہ میں ایسے مرد موجود نہ ہوں جن سے وہ نکاح کا تعلق قائم کر کے باعزت زندگی گزارسکیں۔ یک زوجگی کا مطلق اصول کسی کو بظاہر خوشنما نظر آیٔکتا ہے مگر واقعات بتاتے ہیں کہ موجودہ دنیا میں وہ پوری طرح قابلِ عمل نہیں، گویا ہمارے لئے انتخاب (Choice) ایک زوجہ اور متعدد زوجہ کے درمیان نہیں ہے بلکہ خود متعدد زوجہ کی ایک قسم اور دوسری قسم کے درمیان ہے۔
اب ایک صورت یہ ہے کہ یہ ''فاضل'' عورتیں جنس پوارگی یا معاشرتی بربادی کے لئے چھوڑ دی جائیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اپنی آزادانہ مرضی سے ایسے مردوں کے ساتھ ازدواجی رشتہ میں وابستہ ہو جائیں جو ایک سے زیادہ بیویں کے ساتھ عدل کرسکتے ہوں۔
مذکورہ بالا دو ممکن صورتوں میں سے اسلام نے دوسری صورت کا انتخاب کیا ہے اور غیر اسلام نے پہلی صورت کا۔ اب ہر شخص خود فیصلہ کرسکتا ہے کہ دونوں میں سے کون سا طریقہ زیادہ با عزت اور زیادہ معقول ہے۔
اختلاطِ مرد و زن
اختلاط مرد و زن کا ذکر آتے ہی ذہن مغرب میں رائج عورتوں اور مردوں کے درمیان سماجی تعلقات کے گھنائونی تصویر آجاتی ہے بلاشبہ ان تعلقات کی نوعیت کو کوئی دین پسند نہیں کرتا۔ عام لباسوں میں اظہار زیب و زینت لازمی بن گیا ہے۔ گویا عورت اس وقت تک خوش نہیں ہوسکتی جب تک لوگوں کی توجہ اپنی طرف نہ کھینچ لے۔ پھر عورتوں کو ایسے کاموں میں لگنا پڑتا ہے جہاں خلوت ہوتی ہے اور شریف عورت کو اپنی عزت بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔ مغربی تہذیب نے رقص کی آزادی اور لذات پرستی کی تسکین کے لئے بہت ساری چیزوں کو مباح کر کے خاندان کی قیمت ہی گرادی ہے۔
اس جاہلیت کے بیچ دین کی جگہ کیا ہے؟ یہودیت فلسطین کو یہودیا نے اور عربوں کو نیست و نابود کرنے میں مشغول ہے۔ عیسائیت مسلم ممالک پر صلیبی حملوں میں لگی ہوئی ہے اور ہر طریقہ سے انہیں اسلام سے بیگانہ کر دینا چاہتی ہے۔ ان کے عوام کی دینداری کی حقیقت بس اتنی سی ہے کہ سال میں چند تہوار منالیے جائیں۔
آج کی غالب انسانی تہذیب نے جسمانی لذتوں کوف طرف حقوق سمجھ لیا ہے، اور اس میں اسے اخلاق و کردار کے منافی کوئی بات نظر نہیں آتی اس کے بعد اس نے اپنی سرگرمیوں کا رخ فوجی و شہری سائنسی میدانوں کی طرف موڑ کر لمبی چھلانگ لگالی ہے۔
دوسری طرف ملت اسلامیہ نے اسلامی فطری طریقہ چھوڑ دیا۔ شادی کی راہ میں سخت اقتصادی اور سماجی دشواریاں کھڑی کر دیں اور ایسی روایات اپنالیں جن میں مرد عورت ایک دوسرے کو دیکھ بھی نہ سکیں۔
غور سے دیکھئے تو یہ روایات ریاکاری، جہالت بعض نسلوں کے جذبۂ برتری اور تدین کے دعوی پر مبنی ہیں۔
میرے خیال میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ مغرب کی روایات شرف سے عاری ہیں تو مشرق کی روایات نا سمجھی پر مبنی ہیں اور دونوں نے تباہیاں مچا رکھی ہیں۔
ہمیں اسلامی روایات کو ان کے سرچشموں اور اولین اسلاف کے عمل کی روشنی میں دیکھنا چاہیے، ان لوگوں کے گمان کی روشنی میں نہیں جو منحرف ہو کر یہ چاہتے ہیں کہ عورت کو روحانی اعتبار سے زندہ درگور کردیں جیسے ان کے آباء و اجداد نے اسے جمسانی طور پر زندہ دفن کیا تھا۔
اولین اسلاف کے دور میں عورتیں دن میں پانچ بار گھر سے مسجد کے درمیان چکر لگاتی تھیں یہ ان کے ضمیر پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ اسے و اپنی گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی میں حارج نہ ہونے دیں۔ پھر مسجد میں مردوں اور عروتوں کی صفیں الگ الگ ہوتی تھیں۔ اسے اختلاط قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پھر نگاہیں جھکائے رکھنے اور پرہیز گاری سے کام لینے کی سب کو ہدایت ہے اگر ایک بار نگاہ پڑ بھی جائے تو دوبارہ نگاہ ڈالنے کی اجازت نہیں۔
مسلمان عورت پر وقار انداز میں بازار، مدرسہ اور مسجد جایا کرتی تھی۔
ترمذی کی روایت ہے کہ حضرت اسمائ بنت یزید نے فرمایا رسولۖ ہم عورتوں کے پاس سے گزے تو ہمیں سلام کیا۔
صحابیات اسی پروقار انداز میں فوج کے ساتھ نکلتی تھیں، فوجیوں کے لئے کھانا تیار کرتی تھیں، مریضوں کی دیکھب ھال کرتی تھیں اور شہیدوں کو منتقل کرتی تھیں انہیں رسول اللہ تحفوں کی شکل میں کچھ معاوضہ بھی دیتے تھے۔
میں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دونوں جنسوں کے درمیان تعلقات سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ دلوں میں ایمان کو جاگزیں کیا جائے، پھر اس کی بنیاد پر اخلاص تو کل، وفاداری کنارہ کشی اور شوق و خوف کے جذبے پیدا کئے جائیں، پھر سچائی، نیکی، اخلاق اور وفاداری و رحمدلی پر مبنی سماجی کردار پیدا کیا جائے۔
ان چیزوں کے بغیر جو نفسیاتی امراض پیدا ہوتے ہیں وہ جنسی بے چینی سے زیادہ قوموں کے لء مہلک ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان باہم کینہ و نفرت دشمنوں کی سرگرمیوں سے بھی زیادہ خراب اثر ڈالتے ہیں۔
یہ حماقت ہی ہوگی کہ دل کی خباثت اور دوسروں سے حسدکے مقابلے میں چہر کھولنا ہی زیادہ خطرناک سمجھا جائے۔

عمر اکمل شادی کی اننگز کھیلنے کیلئے تیار،عبدالقادر کی بیٹی سے منگنی طے


قومی کرکٹ ٹيم کے مڈل آرڈر بيٹس مين عمر اکمل کی نسبت سابق ليگ اسپنرعبدالقادر کی بیٹی کے ساتھ طے پا گئی۔لاہور سے تعلق رکھنے والے نوجوان کرکٹر اپنی زندگی کی اہم اننگز کھيلنے کے ليے تيار ہيں۔ ذرائع کے مطابق عمر اکمل کی شادی اگلے سال ہوگی اور اس سلسلے ميں تيارياں جاری ہيں۔  ذرائع کا کہنا ہے کہ اکمل برادران اور عبدالقادر کے خاندانی تعلقات ہیں جو اب رشتے داری ميں بدل رہے ہيں۔ دونوں خاندانوں نے مزید تفصیلات بتانے سے گريز کيا ہے
https://www.facebook.com/UnitedPeopleOfPakistan 

لال مسجد کے نائب خطیب کی چیف جسٹس کیخلاف درخواست دائر





لال مسجد کے نائب خطیب مولانا عامر نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائر کر دی۔درخواست میں مولانا عامر نے ججوں کے کوڈ آف کنڈکٹ کو چیلنج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ اسلامی اصولوں کے مطابق چیف جسٹس کو بیٹے کا مقدمہ خود سننا چاہیے۔ ججوں کا ایسا رویہ اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔کسی قاضی یا منصف کو انصاف کی فراہمی کے عمل میں گریز یا اجتناب کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے اپنے صاحبزادے کے خلاف کیس نہ سن کر اسلامی اصولوں سے انحراف کیا۔

https://www.facebook.com/UnitedPeopleOfPakistan

ملالہ پر حملہ کرنے والوں کی گرفتاری پر ایک کروڑ انعام کا اعلان


پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیرِ اطلاعات میاں افتخار حسین نے ملالہ یوسفزئی پر حملہ کرنے والے ملزمان کی گرفتاری میں مدد دینے والے افراد کے لیے ایک کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا ہے۔پشاور میں ملالہ یوسفزئی کی عیادت کے بعد اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کامیاب آپریشن کے بعد ملالہ کی حالت سنبھل گئی ہے لیکن انھیں مزید دو روز تک بے ہوشی کی حالت میں رکھا جائے گا تاکہ ان کی توانائی کو بحال کیا جاسکے۔میاں افتخار حسین نے کہا کہ ملالہ یوسفزئی کا علاج ماہر ڈاکٹرز کر رہے ہیں اس لیے فی الحال انہیں ملک سے باہر بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔میاں افتخار حسین نے ملزمان کی گرفتاری میں مدد دینے والے افراد کے لیے ایک کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا اور کہا کہ جو شخص یا افراد ملزمان کی گرفتاری میں مدد دیں گے ان کی شناخت اور نام ظاہر نہیں کیے جائیں گے۔ادھر پاکستانی فوج کے سربراہ اشفاق پرویز کیانی، گورنر خیبر پختونخوا بیرسٹر مسعود کوثر اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما امیر مقام نے بھی بدھ کو ملالہ یوسفزئی کی عیادت کی۔ملالہ یوسفزئی کا آپریشن منگل اور بدھ کی درمیانی رات ایک بجے سے لے کر پانچ بجے تک جاری رہا اور اس دوران ان کے جسم سے گولی نکال لی گئی۔اس سے پہلے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ گولی ملالہ یوسفزئی کے ماتھے اور سر سے ہوتی ہوئی پیچھے گردن کے راستے کمر میں چلی گئی تھی جس سے سر میں سوجن ہو گئی تھی تو ایسی حالت میں آپریشن کرنا مناسب نہیں تھا۔

https://www.facebook.com/UnitedPeopleOfPakistan 

Please pray for her...


►►►► Maximum Shares Required this Time. ◄◄◄◄


Sunday 7 October 2012

زرداری سے ناراض گیلانی جلد ن لیگ میں شامل ہونے جا رہے ہیں۔ انکشاف





ذمہ دار ذرائع سے معلوم ہوا ہے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کرنے پر غور شروع کردیا‘ اپنے بیٹے کی گرفتاری اور ایوان صدر سے مایوسی اور دل برداشتہ ہونے کا بیان انکی اندرونی تبدیلی کا مظہر ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ انکی آئندہ منزل مسلم لیگ ن ہوسکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے حلقوں نے کہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی صدرمملکت کی ہدایات کو بھی نظرانداز کرتے رہے۔ یوسف رضا گیلانی نے اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار سمیت مسلم لیگ ن کے ارکان کو کروڑوں روپے کے فنڈز جاری کئے جن سے انہیں اپنے انتخابی حلقے مستحکم کرنے میں زبردست مدد ملی جبکہ پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی و سینیٹ حکومت ہونے کے باوجود فنڈز کی فراہمی کو ترستے رہے اور انکے حلقوں میں بہت کم کام ہوئے۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کابینہ میں بھی اپنا الگ گروپ تشکیل دے رکھا تھا اور وہ صدر آصف علی زرداری کے نامزد کردہ وزیروں کو بالکل لفٹ نہ کراتے اور نہ ہی انہیں اختیارات دیئے گئے یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن پارلیمنٹ کے اندر وزیراعظم کے خلاف کوئی بات نہیں کرتی تھی اور وہ صدر پاکستان کو ٹارگٹ بناتے رہے۔ ذرائع نے بتایا کہ صدر آصف علی زرداری آئندہ چند دنوں میں سید یوسف رضا گیلانی سے ان کے تازہ بیان کی وضاحت طلب کریں گے۔

https://www.facebook.com/UnitedPeopleOfPakistan

ن لیگ کے نااہل رکن پنجاب اسمبلی نے ٹونی بلئیر کا گھر13لاکھ پاؤنڈ میں خرید لیا


بدہری شہریت کی بنا پر پنجاب اسمبلی میں اپنی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے ڈاکٹر اشرف چوہان نے سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیر کا گھر خرید لیا۔گوجرانوالہ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے ن لیگ کے ڈاکٹر اشرف چوہان پیشے کے اعتبار سے آرتھوپیڈک سرجن ہیں۔ سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلئیر نے چھ ماہ قبل لندن کے علاقے میری لی بون میں واقع اپنا گھر فروخت کیلئے پیش کیا تھا۔ گھر کی سیاسی اہمیت کے پیش نظر برطانیہ کے کئی امراء نے اس کو خریدنے کی پیش کش کی مگر ڈاکٹر اشرف نے تیرہ لاکھ پاؤنڈ میں یہ گھر خرید لیا۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر اشرف نے یہ گھر اپنے قائد میاں نواز شریف کی قربت حاصل کرنے کیلئے خریدا ہے۔ میاں نواز شریف کا گھر پارک لین میں واقع ہے جو میری لی بون کے علاقے سے تھوڑے فاصلے پر ہے۔

https://www.facebook.com/UnitedPeopleOfPakistan 

چیف جسٹس افتخار چوہدری اگلے ہفتے استعفی دے دیں گے۔ اہم شخصیت کا دعوی





اسلام آباد (انصار عباسی) ایک بار پھر نئے چہروں کے ساتھ بعض عناصر ایک انتہائی بااثر شخصیت کے ساتھ مل کر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر ایک ”مہلک“ حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں تاکہ مذکورہ بااثر شخصیت یہ ثابت کرسکے کہ عدالت اس کے ساتھ انصاف نہیں کررہی۔ اس منصوبے کی تیاریوں میں شامل ایک شخص نے  اس نمائندے کو اشارہ دیا کہ یہ ”دھماکا“ اگلے ہفتے میں کسی بھی وقت متوقع ہے ۔ حکومت بظاہر ایک غیر جانبدار تماشائی کی طرح رویہ رکھنے کے باوجود عدلیہ پر حملے کی حمایت کرے گی ۔ تاہم کچھ روز قبل جب   اس نمائندے نے وزیراعظم کے پریس سیکریٹری سے رابطہ کیا تھا تو انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کیخلاف کچھ بھی نہیں ہونے جارہا ہے۔ کوئی اشارہ نہیں دیا جارہا کہ آیا اس ”دھماکا خیز مواد“ کی نوعیت کیسی ہے لیکن دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ”حقائق“ سے پردہ اُٹھانے والی پریس کانفرنس کے انعقاد کے ساتھ ہی چیف جسٹس مستعفی ہوجائیں گے۔ اس نئے ”دھماکے“ کے موجدوں میں سے ایک موجد موجودہ نظام میں بااثر اور طاقتور لوگوں کے غلط کام ، ان کی بڑے پیمانے پر کرپشن اور اداروں کی تباہی دیکھنے کیلئے تیار نہیں۔ باوجود اس کے ذریعہ نے اصرار کیا کہ یہ عدلیہ اور میڈیا ہیں جو پاکستان کے مفاد کو سنگین نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ فوج اور آئی ایس آئی اس معاملے پر کیسا ردعمل ظاہر کرے گی تاہم تاثر یہی دیا جارہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ لاپتہ افراد اور بلوچستان بحران کے معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان سے خوش نہیں، تاہم ایک ذریعے نے حال ہی میں اس نمائندے کو بتایا کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ٹریپ گیٹ اسکینڈل میں آئی ایس آئی کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی میڈیا رپورٹس کا سخت نوٹس لے لیا ہے اور اعلیٰ انٹیلی جنس ایجنسی کو ان معاملات سے دور رہنے کی سخت ہدایت کی ہیں۔ ملک ریاض نے حال ہی میں اس نے ملنے والے صحافیوں کو یہ معلومات فراہم کی تھیں جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ آئی ایس آئی کے بعض اہلکاروں نے مبینہ طور پر رقم وصول کرتے ہوئے ڈاکٹر ارسلان کی ویڈیو بنائی تھی ۔ تاہم ڈاکٹر ارسلان نے ان الزامات سے انکار جبکہ آئی ایس آئی حکام نے بھی ایسی رپورٹس کو یکسر مسترد کردیا تھا ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی ایس آئی کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات بھی کی گئی تھی لیکن اس کے نتائج تاحال معلوم نہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ کچھ ماہ قبل ٹریپ گیٹ کے منظر عام پر آنے کے وقت میڈیا میں یہ کہا جارہا تھا کہ اسکینڈل برطانوی میڈیا میں زوروشور سے سامنے آئے گا ۔ اس اسکینڈل کے منتظر اور اس سے خوش ہونے والے افراد کو ایسا نہ ہونے پر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اسکینڈل پاکستانی میڈیا میں پہلے منظر عام پر آگیا۔

https://www.facebook.com/UnitedPeopleOfPakistan