Thursday 11 October 2012

پاکستانی وادی کیلاش سے اکثر نو عمر لڑکیوں کو یونان خرید کر لے جا رہا ہے۔تحقیقی رپورٹ


چترال کا نام زبان پر آتے ہی کچھ مخصوص چیزیں فوراً ذہن میں آ جاتی ہیں.... پولو.... آغا خانی.... وادی کیلاش کی کافر تہذیب اور چترال سے پاکستان بھر میں ہونے والی شادیوں کی روایت۔ ہمیں بھی انہی سب باتوں نے ایک بار پھر چترال جانے پر مجبور کیا، لیکن ہم چترال کی تمام تر روایات اور باتوں میں سے سب سے پہلے وادی کیلاش کے کافروں کا ذکر کریں گے کہ جو تیزی سے اسلام قبول کر رہے ہیں، کافر تہذیب مٹ رہی ہے کہ غیر مسلم دنیا نے اسے پاکستان میں اپنے لئے نئے خطرے کی گھنٹی جان کر دن رات ایک کر دیئے۔ ماہ مئی کے اواخر میں دنیا کے سب سے بڑے نشریاتی ادارے بی بی سی نے بھی کافر تہذیب کے مٹنے پر سخت تشویش کا اظہار کیا تو ہمیں بھی خیال آیا کہ چل کر دیکھیں تو سہی کہ ان لوگوں کو کیوں اور کیا پریشانی ہے؟
چترال جانے کے لئے راستہ تو سوات سے جاتا ہے لیکن دیر بالا کے بعد کئی گھنٹوں کا سفر انتہائی دشوار گزار اور پہاڑی ہے۔ سردیوں کے موسم میں چترال باقی ملک سے کٹ جاتا ہے، اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے دیر سے چترال تک لواری کے پہاڑی سلسلے میں ایک سرنگ بنائی جا رہی ہے، سرنگ کا منصوبہ تقریباً 30سال پرانا ہے جسے پانچ سال پہلے ایک بار پھر شروع کیا گیا ہے، لیکن موجودہ پاکستانی حکومت کی ”مہربانیوں“ کے باعث سرنگ کھودنے والی کورین کمپنی سامبو کام چھوڑ کر جا چکی ہے جس روز ہم وہاں پہنچے، سامبو کا سامان ٹرکوں پر لادا جا رہا تھا اور چترال کے عوام اس پر شدید مضطرب اور پریشان تھے۔ آج کل یہ لوگ مسلسل مظاہرے کر رہے ہیں لواری ٹنل تقریباً سوا آٹھ کلو میٹر طویل ہے لیکن تاحال اس کا مخصوص ”درہ کھودا گیا ہے۔ یہاں سے گاڑیاں تو گزرتی ہیں لیکن مخصوص محکمے کی خصوصی اجازت کے بعد کیونکہ سرنگ اندر سے کچی اور زیرتعمیر ہے وگرنہ ساری ٹریفک گھنٹوں کا سفر طے کر کے چترال پہنچتی ہے۔
چترال کی وادی کیلاش جسے دنیا کافرستان کے نام سے بھی یاد کرتی ہے چترال شہر سے تقریباً 30 کلو میٹر پہلے مغرب کی طرف واقع ہے۔ راستے میں غیریت اور دروش کے علاقے آتے ہیں لیکن اب وادی کیلاش کافرستان نہیں رہی کیونکہ یہاں کے لوگوں کی بھاری اکثریت نے اسلام کی حقانیت سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا ہے۔ باقی ماندہ لوگ بھی اسلام قبول کر رہے ہیں لیکن اب غیر ملکی ادارے اور قوتیں ان کے راستے کی رکاوٹ بن رہی ہیں۔ کیلاش قبیلے کو مکمل طور پر حلقہ بگوش اسلام ہونے سے بچانے کے لئے بے تحاشہ پیسہ بہایا جا رہا ہے۔ وہی کیلاش جو کل تک مکمل قلاش تھے اب روپے پیسے میں کھیلتے ہیں اور ان کی اکثرلڑکیوں کو یونان کی حکومت اور این جی اوز خرید کرلے جاتی ہیں اور پھر ان کی تربیت کرنے کےبعد جب وہ جوان ہوجاتی ہیں انہیں واپس اس وادی میں بھاری رقم دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ  ایک طرف مقامی مسلمانوں کو اپنی محبت کے جال مین پھنسائیں اور ان سے شادی کر کے انہیں اپنے مذہب میں شامل کریں اور دوسری طرف وہ کسی کو مسلمان نہ ہونے دیں لیکن پھر بھی.... گاہے گاہے ان کے لوگ مسلمان ہو ہی جاتے ہیں۔
چترال چونکہ افغانستان کے ان دو صوبوں کنہڑ اور نورستان کے ساتھ براہ راست سرحد رکھتا ہے، جہاں امریکی اور اتحادی افواج پر افغانستان کی تاریخ کے سخت ترین حملے ہوئے اور اتحادی سب سے پہلے انہی دو صوبوں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے، اس لئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی چترال اور خصوصاً افغان سرحدی علاقہ کیلاش پر خصوصی نگاہ ہے۔ اس حوالے سے یہ رپورٹیں بھی آتی رہی ہیں کہ امریکہ چترال پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
وادی کیلاش بنیادی طور پر 3حصوں پر مشتمل ہے۔ چترال شہر سے تقریباً 30 کلو میٹر پہلے ایون نامی ایک چھوٹا قصبہ آتا ہے جہاں سے اس علاقے کو جانے کے لئے راستے نکلتے ہیں۔ ایک طرف وادی بریر دوسری طرف بمبوریت اور تیسری طرف وادی رمبور ہے، لیکن ان سب میں مرکزی حیثیت بمبوریت کو حاصل ہے جہاں کیلاش سب سے زیادہ بستے ہیں۔ اسی علاقے میں ہی سب سے زیادہ ہوٹل اور سیاحوں کے لئے سامان تفریح مہیا ہے۔ دوسرے نمبر پر رمبور ہے جبکہ بریر کی طرف بہت کم ہی لوگ رخ کرتے ہیں کیونکہ یہ زیادہ بلندی پر بھی نہیں اور اس کا موسم بھی اس قدر ٹھنڈا نہیں کہ سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ سکتے۔
کیلاش قبیلے کی تاریخ: کیلاش قبیلے کی تاریخ پر بھی مورخین کا اختلاف ہے۔ کیلاش خود کو بنیادی طور پر سکندر اعظم کی اولاد کہتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق سکندر اعظم کی افواج کے زخمی سپاہی اپنے اہل و عیال سمیت یہاں ٹھہر گئے تھے اور پھر وہیں سے یہ قبیلہ پرورش پاتا گیا۔ ایک دوسری روایت کے مطابق یہ لوگ دو سو سال قبل مسیح سے تعلق رکھتے ہیں اور بنیادی طور پر یہ لوگ افغان صوبہ نورستان کے باسی ہیں۔ 1890ءمیں جب نورستان کے امیر عبدالرحمان نے صوبہ کا نام کافرستان سے نورستان رکھا اور وہاں کے لوگوں کو دعوت اسلام دی تو تقریباً سبھی لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ معدودے چند لوگ اسلام قبول کرنے سے منکر ہوئے اور پھر کیلاش کی وادیوں میں آ کر بس گئے۔ ایک اور روایت کے مطابق کیلاش قبیلہ عرصہ دراز تک چترال کا حکمران رہا۔ پھر یہاں کے مسلمانوں نے انہیں شکست دیکر چترال چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور یہ لوگ جان کی امان پا کر وادیوں گھاٹیوں میں رہنے لگے۔ ویسے اس بات پر تقریباً سبھی کا اتفاق ہے کہ چترال پر کیلاش قبیلہ کی حکومت رہی ہے اور یہ کہ چند دہائیاں قبل ان کی آبادی 35 سے 40 ہزار تک تھی لیکن اب یہ لوگ 2 ہزار سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ اس بات کا ایک عملی ثبوت یہ بھی ہے کہ ان لوگوں کے کیلاشی لباس پہن کر چترال یا علاقے کے دوسرے حصوں میں جانے پرپابندی ہے۔
کیلاشی روایات جو دم توڑ گئیں: کیلاش قبیلہ کالا لباس پہننے کی وجہ سے کالا کافر بھی کہلاتا ہے۔ یہ لوگ پہلے پہل ساری زندگی غسل نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ گندے رہتے لیکن اب وہ صفائی ستھرائی کو اپنا چکے ہیں۔ اگرچہ ان کے ہاں اب بھی غسل کا رواج کم ہے لیکن کبھی نہ غسل کرنے کا رواج ختم ہوچکا ہے.... یہ لوگ پہلے پہل اپنے مردوں کو دفن کرنے کی بجائے لکڑی کے ڈبے میں مردے کی ذاتی اشیاءکے ساتھ اسے قریبی جنگل میں چھوڑ دیتے تھے۔ وہ وہیں گلتا سڑتا، بدبو پیدا کرتا اور پھرختم ہو جاتا.... خدا پر تو ان کا ایمان ہے اس لئے وہ مردے کے حساب کتاب پر ایمان رکھتے ہوئے ایک بندوق بھی تھما دیتے تھے کہ جب نعوذ باللہ فرشتے آئیں تو وہ ان پر گولی چلا دے۔ جب مردہ خشک ہو جاتا اور اس کی انگلی سے ٹریگر دب جاتا اور گولی کا دھماکہ ہوتا تو کیلاشی خوشی سے جشن مناتے کہ ہمارے مردے نے فرشتوں کو نعوذ باللہ گولی مار دی ہے لیکن جب کیلاشی قبیلے نے دیکھا کہ ان کے مردوں کی قیمتی اشیاءاور بندوق وغیرہ مقامی نوجوان اچک لے جاتے ہیں تو انہوں نے یہ سلسلہ ترک ہی کر دیا۔ گولی چلنے کا واقعہ ویسے بھی بمشکل چند مرتبہ ہی پیش آیا.... اب ان لوگوں نے مردوں کو باقاعدہ دفن کرنا شروع کر دیا ہے لیکن پرانی روایت کے ڈبے، مردوں کی ہڈیاں اور نشانات سب کچھ وہاں موجود ہےں اور دیکھا جا سکتا ہے۔ ان روایات کو ختم کرنے میں بھی مقامی مسلمانوں کا بڑا کردار ہے، جنہوں نے کیلاش لوگوں کو وعظ و نصیحت سے سمجھایا کہ ان کے ان افعال سے سب کو تکلیف ہوتی ہے، مردوں کی بدبو، گندے جسم اورگندے گھر تعفن اور بیماریاں پھیلاتے ہیں اور ہر کوئی ان سے نفرت کرتاہے۔ مسلمانوں نے جب انہیں صاف ستھرا رہنے کی طرف توجہ دلائی اور اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کیا تو بہت سے لوگ اسلام کی اس خوبصورت تعلیم سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئے۔
یونان کی خصوصی مداخلت: کیلاش لوگ اپنے آپ کو سکندر اعظم کی اولاد کہتے اور سمجھتے ہیں چونکہ تاریخ کے مطابق سکندر اعظم کا تعلق یونان سے تھا اس لئے یونانی حکومت اور این جی اوز نے اس علاقے میں خصوصی دلچسپی لی۔ مغربی ممالک سے آنے والے سیاحوں میں ہمیشہ بھاری اکثریت یونان کے سیاحوں کی رہی ہے۔ 17 سال قبل 1994ءمیں یہاں یونان کی جانب سے ایک بڑے منصوبے کا آغاز ہوا۔ بمبوریت وادی میں یونانی تہذیب اور کیلاش تہذیب کو محفوظ رکھنے کے لئے ایک خصوصی عجائب گھر بنانے کی تیاریاں شروع ہوئیں چند سال میں یہ عظیم الشان عجائب گھر تیار ہو گیا۔ یہاں یونان سے ہی آنے والے ایک پادری نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ طویل عرصہ یہاں رہنے کے باوجود اس نے کبھی کسی کو اپنا اصل نام اور شناخت نہ بتائی۔ اپنے آپ کو سماجی کارکن کہلوانے والے پروفیسر آتھانسوئیوس لریلیونس کے نام سے معروف اس پادری نے یہاں سکول بھی قائم کیا۔ مقامی بچوں کو اپنے سکول میں داخل کیا انہیں معاوضے دیئے۔ کیلاشی لوگوں کے لئے پانی، بجلی، سڑکوں کی تعمیر وغیرہ کے منصوبوں کا آغاز کیا اور پھر اس کی نگرانی میں بہت سے منصوبے مکمل ہونے لگے۔ کیلاشی بچے جو اس کے سکول یا دیگر غیر ملکی این جی اوز کے سکول میں پڑھنے کے لئے جاتے اور آج بھی جاتے ہیں، کو خصوصی وظیفہ جاری کیاجاتا۔ یہ سلسلہ اب بھی چل رہاہے۔ مغربی اداروں اور یونان نے اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے پاکستان کے اندر ایسے ناموں سے ادارے قائم کر رکھے ہیں کہ بظاہر دیکھنے میں یوں لگتا ہے کہ یہ ادارے پاکستان کے ہی ادارے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
کی مانند، ان کے دکھانے کے دانت اور ہیں کھانے کے اور۔ 8 ستمبر 2009ءکو یونانی پادری کو نامعلوم افراد نے اغوا کر لیا، اس کے اس کا عظیم الشان عجائب خانہ بند کر دیا گیا۔ 9 اپریل 2010ءکو یونانی پادری افغانستان سے رہا ہو کر پاکستان پہنچ گیا۔ بتایا گیا کہ اسے افغان طالبان نے اغوا کیا تھا اور پھر اس کے بدلے اپنے اہم کمانڈر رہا کروائے اور بھاری معاوصہ بھی وصول کیا۔ رہائی کے بعد پادری نے پاکستان چھوڑ دیا لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اس عجائب خانہ سے تھوڑے ہی فاصلہ پر کئی ملین کی لاگت سے ایک اور عجائب خانہ تیزی سے تعمیر کیا جا رہا ہے صرف یہی نہیں، وادی کیلاش میں جگہ جگہ عالیشان ”بشالیاں“ بھی غیر ملکی این جی اوز جدید سے جدید انداز میں تعمیر کر رہی ہیں۔ بشالی دراصل وہ مخصوص گھر ہے جو دریا یا ندی کے کنارے واقع ہوتا ہے۔ یہاں کیلاش قبیلے کی عورتیں اپنے ماہانہ مخصوص ایام اور زچگی کے دنوں میں اپنے خاندان سے الگ ہو کر آ بستی ہیں اور دوبارہ اپنے ایام مکمل ہونے تک یہاں سے واپس نہیں جاتیں، واپس جانے سے پہلے وہ قریبی ندی میں نہاتی ہیں، ان کے کھانے پینے وغیرہ کا انتظام بھی یہیں ہوتا ہے۔ ان عورتوں کے رہنے کی جگہ کو بشالی کہا جاتا ہے تو ان عورتوں کو بشالین۔ یہ وہ روایت ہے جو مشرکین عرب میں اسلام کی آمد سے پہلے پائی جاتی تھی اور جس کا خاتمہ اسلام نے کیا تھا لیکن یہ روایت یہاں آج بھی موجود ہے اور اسے بچانے اور پروان چڑھانے کے لئے غیر مسلم دنیا دن رات متحرک ہے۔

https://www.facebook.com/UnitedPeopleOfPakistan

No comments:

Post a Comment