Wednesday 10 October 2012

خواتین کو گھر میں بند رکھنا اسلام میں جائز نہیں۔ مفکر اسلام کی اہم تحقیق


جن لوگوں نے یورپ و امریکہ میں زندگی کا مشاہدہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ وہاں خاندان حقیقت کے بجائے وہم و خواب بن چکا ہے۔ بہترین نسلوں کی پرورش و پرداخت کے لئے جو بہترین ماحول بنایا جانا چاہئے وہاں خاندان کا بہت معمولی حصہ فراہم کرتا ہے۔ عورت اپنے اپنے کاموں سے باہر نکلے رہتے ہیں یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں کے سپرد کر دئے جاتے ہیں۔
جب اہلِ مغرب ہمارے یہاں خاندان کی اہمیت و حالات کے بارے میں سنتے ہیں تو بہت سی نوجوان عورتیں چاہتی ہیں کہ اس ماحول میں زندگی گزاریں لیکن ہمارے ماحول میں عورت جس فکری و نفسیاتی کمتری سے دوچار ہے اسے دیکھ کر وہ ہمت نہیں کرپاتیں۔
میرے خیال میں جو پڑھی لکھی عورت گھر سے باہر ہی زندگی گزارتی ہے وہ اس سے بے پڑھی لکھی عورت سے بہتر پوزیشن میں نہیں ہوتی جو گھر کے اندر ہی محدود رہتی ہے۔
ہمیں جاننا چاہئے کہ یہ ایک حقیقی نعمت ہے کہ زندگی کا دائرہ باپوں سے اولاد تک اور ان سے پوتوں تک پھیلے اور ایک مستحکم خاندان اس کی بنیاد ہو۔ محض تعداد میں اضافہ اس نعمت کا رکاز نہیں بلکہ عظمت اس نسل سے دوسری نسل تک عقائد اور صالح روایات کی وراثت و منتقلی ہے۔
ہمارے یہاں خاندان دین اور اس کے اصولوں اور عبادتوں کا قعلعہ ہے اور اس میں مرد ہی کی طرح عورت کا کردار اور اس کا اجر بھی مسافیانہ حیثیت رکھتا ہے اللہ تعالی فرماتا ہے:
اور اللہ نے تمہارے لئے ہم جنس بیویاں بنائیں اور اس نخے ان بیویوں سے تمہیں بیٹے پوتے عطا کیے اور اچھی اچھی چیزیں تمہیں کھانے کو دیں پھر کیا یہ لوگ باطل مو مانتے ہیں اور اللہ کے احسان کا انکار کرتے ہیں۔(النحل:٨٢)
زندگی کے رواں دواں قافلہ میں مرد بھاری بوجھ سنبھالنے والے ہوتے ہیں چاہے وہ سیاستداں ہو یا اساتذہ، دکاندار ہوں یا مزدور۔ وہ جب گھر لوٹتے ہیں تو اس کی سخت ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ گرمجوشانہ جذبات کا ماحول ملے جس گھر کی بنیاد ایسی عورت پر ہوتی ہے جو یہ ماحول فراہم کرے وہ نہایت بلند مرتبہ بلکہ سب سے قیمتی گھر ہوتا ہے۔
مغربی روایات نے خاندان کے وجود کو تہ و بالا کر دیا ہے بلکہ یہ روایات تو پوری دنیا ہی کو تہ و بالا کئے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف اسلامی روایات سے کم ہی لوگ واقف ہیں اور جاہل متدین لوگ ان روایات کو پھیلانے میں سخت مزاحمت کرتے ہیں۔
بہر حال عورت کا گھر کی مالکہ کا کردار بہترین کردار ہے۔ دیگر ذمے داریاں جو عورت کو سنبھالنی پڑتی ہیں وہ اس بنیادی کردار میں حائل نہیں ہونی چاہئیں۔
حافیظ ابن عبدالبر نے روایت نقیل کی ہیغ کہ حضرت اسمائ بنت یزید انصار یہ رسولۖ کے پاس آئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپۖ پر فدا ہوں میں آپۖ کے پا عورتوں کی نمائندہ بن کر آئی ہوں۔ اللہ تعالی نے آپ کو تمام مردوں اور عورتوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے۔ ہم آپ پر اور اللہ تعالی پر ایمان لا ئے، ہم عورتیں گھروں میں محدود محضور ہیں اور مردوں کی اولاد کی دیکھ بھال کرتی ہیں جبکہ مرد جمعہ جماعت میں شرکت، مریضوں کی عیادت، حج، جنازوں میں شرکت اور سب سے بڑھ کر اللہ کی راہ میں جہاد کا ذریعہ ہم سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ جب مرد حج و عمرہ یا جہاد کے لئے نکلتے ہیں تو ہم ان کے مال کی حفاظت کرتی ہیں، ان کے لئے کپڑے تیار کرتی ہیں اور اولاد کی پرورش کرتی ہیں تو کیا ان کے اجر میں ہماری شرکت بھی ہوگی؟ رسول اللہۖ اپنے صحابہ کی طرف پوری طرح متوجہ ہوئے اور فرماای: کیا تم نے کبھی کسی عورت کو دین کے بارے میں اس سے بہتر سوال کرتے سنا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمیں گمان بھی نہیں تھا کہ کوئی عورت اس درجہ تک پہنچ سکتی ہے۔ تب آپۖ ان (صحابیہ) کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم بھی سمجھ لو اور جو عورتیں تمہارے پیچھے رہ گئی ہیں انہیں بھی سمجھا دو کہ عورت کا اپنے شوہر کے ساتھ حسن معاشرت اکور اس موافقت و رضا مندی کے حصول کو کوشش مذکورہ (ساری عبادتوں) کے برابر ہے۔
کچھ میدان ایسے ہیں جن میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہونی چاہئے۔ مثلاً طب کا میدان ڈاکٹر سے لے کر نرس تک… پھر تعلیم و تدریس کا میدان۔
عورتوں کے لئے تعلیم کے تمام دروازے کھلے رکھنے چاہئیں۔ آج دنیا کی عورتیں فضائی تحقیقات کیلئے پروازیں کر رہی ہیں، مسلم عورتوں کو علم سے محروم رکھنا کتنی بڑی زیادتی ہے۔
علم دین کے متعلق بعض لوگوں کی فقہی کند ذہنی نے اسلام کے لئے بہت سی تنگیاں پیدا کیں اور اس کے دشمنوں کو اس کا گلا گھونٹنے کا موقع دیا۔
مجھے یاد ہے تقریباً ساٹھ برس پہلے جب میں اسکندریہ میں پڑھ رہا تھا تو جس کالج میں پرنسپل ڈاکٹر طہ حسن تھے اس کی آرٹس فیکلٹی میں انہوں نے طالبات کا سیکشن کھول دیا جس پر بڑی دے مچائی گئی پھر ایک طویل عرصہ کے بعد جامع ازہر نے بھی لڑکیوں کے لئے کالج کھولا۔
وجہ کیا تھی؟ اسلام کے نام نہاد ترجمانوں کی فقہی کند ذہنی۔ جب وہ کسی راستے میں آگے بڑھنے کے لئے آمادہ بھی ہوتے ہیں تو شکست خوردگی کے ساتھ۔
اسلام جب عورت کے بلند درجہ کی تائید کرتا ہے تو وہ مغربی تہذیب کی حیوانی پیش رفتوں سے اس کا تحفظ کرتا ہے۔ کیونکہ دین اسے باوقار بناتا ہے جبکہ مغربی تہذیب اسے کھولونا بناتی ہے۔
دین مدر عورت کے خلوت میں اکٹھا ہونے کو مسترد کرتا ہے۔
اکثر یہ سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ ڈائریکٹر وغیرہ قسم کے لوگوں کے لئے پرائیویٹ سکریٹری لڑکیاں ہی کیوں رکھی جاتی ہیں۔ عورتوں ہی کو کیوں ائر ہوسٹس بنایا جاتا ہے۔
عورتوں کو تو ایسے کاموں میں لگانا چاہیے جہاں کا ان کے وقار کا تحفظ ہوسکے۔
عورتوں کی گھریلو ذمے داریوں کے پیش نظر ان کے لئے ایسے کام ہونے چاہئیں جو آدھے وقت کے ہوں۔
عورتوں کو حقیر سمجھنے کا خیال مٹانے کی ضرورت ہے اور انہیں بلا وجہ مورد الزام بنانا بالکل احمقانہ ہے، جیسا کہ دین کے نام نہاد ترجمانوں کا رویہ ہوتا ہے۔
یہ کہنا کہ عورت ہی نے آدم کو جنت سے نکلوایا اس پر بہتان باندھنا ہے۔
اس طرح یہ گمان بھی جعلسازی ہے کہ عورت مرد کو جہنم کی طرف لے جانے والی ہے۔
اسلامی نظریہ تو یہ ہے جیسا کہ قرآن کریم اعلان کرتا ہے:
ترجمہ: میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ مرد ہو یا عورت تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔ (آل عمران ٩٠)
عزت آبرو کے سلسلے میں غیرت مندی بالکل بجا ہے لیکن آبرو کا تحفظ جیلر کی ذہنیت سے نہیں کیا جاسکتا۔
علم و تقویٰ کے ذریعہ عقل و ضمیر کی تشکیل اور لوہے کے پنجڑے میں جسموں کو قید کرنے کے درمیان بہت فرق ہے۔
اسلام نے عورت کو تعلیم دینے، عبادت کرنے اور ان دونوں کے ذریعہ روح و فکر کو جلا دینے کی طرف رہنمائی کی ہے۔
جیلر کی ذہنیت یہ ہوتی ہے کہ عورت نہ کسی وو دیکھ سکے نہ کوئی اسے دیکھ سکے۔
جب لوگوں نے گھوڑے اور گدھے کی سواری پر ہوائی جہاز اور کار کو ترجیح دی تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ انہوں نے اسلامی مواصلات کو حقیر سجھ کر ایسا کیا۔ موصلات کے ان ذرائع سے اسلام کا کیا تعلق تھا؟
جب لوگ ان روایات کو چھوڑتے ہیں جنہیں جیلر کی ذہیت نے بنایا تھا تو وہ اسلام کو نہیں بلکہ بعض لوگوں کے طریق زندگی کو چھوڑتے ہیں۔
فیصلہ کن صرف کتاب و سنت ہیں۔ پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ مسئلہ بعض لوگوں کی آیات و احادیث کے معنی کی سمجھ سے پیدا ہوتاہے۔
مسند احمد کی روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا ''میں نے جنت کو دیکھا تھا اسمیں اکثر غریب لوگ اور جہنم کو دیکھا تو اس میں اکثر مالدار اور عورتیں تھیں۔
عام صوفیوں نے حدیث کے پہلے حصہ کو تے لے لیا تو مال و دولت کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور دولت کو اتنا حقیر بنا کر پیش کیا کہ پچھلی صدیوں میں مسلمان دنیا کے فقیر ہو کر رہ گئے۔
دوسرے کوتاہ نظر لوگوں نے دوسرے حصہ کو لیا تو عورت کو لعنت کی چیز اور شیطان کا جال قرار دے دیا۔
معاملات کو سمجھنے میں یہ فکر بے وزن اور ایسے لوگ کتاب و سنت سے بیگا ہیں۔
افراط و تفریظ کے درمیان ایک تیسری لائن ہے جسے جاننا اور اختیار کرنا چاہئے۔ یہ لائن بیشتر مسلم معاشروں میں عورت کی حالت سے مطابقت نہیں رکھتی، نہ مغرب کی روایات سے میل کھاتی ہے۔
افلاطون نے اپنے بہترین شہر و تہذیب کے فلسفہ میں بھی عورتوں کو کھلونا ہی بنایا ہے، تب گندی تہذیب میں اس کا کیا حال ہوگا۔
دوسری طرف جیلر کی ذہنیت سے بھی پاکیزہ دل اور ترقی یافتہ ذہن والی قوم پروان نہیں چڑھ سکتی۔
اسلام کی صحیح تعلیمات ہی سے ایک ایسی دنیا تعمیر ہوسکتی ہے جس میں باہم ہمدردی اور تحفظ کام دور دورہ ہو۔
 کیا نقاب فرض ہے؟
دور اول میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب… جو پردہ کے سلسلے میں سختی کے لئے مشہور ہیں۔ ایک خاتنو شفاء بنت عبداللہ مخزومیہ کو مدینہ منورہ کے بازار کا قاضی مقرر فرماتے ہیں۔ یہہ ایک دینی و شہری منصب تھا جس کے لئے تجربہ اور قوت فیصلہ دونوں درکار تھے۔
ابن کثیر ''البدایة و النھایة'' میں نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر کے قتل کے بعد ان کے جانشین کے تقرر کے لئے حضرت عبدالرحمن بن عوف تین روز تک مردوں و عورتوں سے مشورہ کرتے رہے اور اس سلسلے میں کسی ایسے مرد یا عورت کو نہیں چھوڑا جسے رائے قائم کرنے کے قابل سمجھا جاتا تھا۔
عورتوں سے مشورہ کیا جاتا تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ رسولۖ نے بذات خود ام المومنین ام سلمہ سے اس وقت مشورہ کیا تھا جب صلح حدیبیہ کے وقت لوگ احرام کھولنے میں پہلو تہی کر رہے تھے۔
لیکن پچھلی صدیوں میں مسلمان عورت ان جاہلی روایات کا شکار ہو کر معنوی موت مر گئی جو دین کا حصہ نہیں تھی پھر جب جدید تذہیب اپنی اباجیت پرستی کے ساتھ سامنے آکر چیلنج کرنے لگی تو اہلِ دین کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اب کیا کریں۔ میں نے سیرت نبوی کے مطالبہ میں دیکھا ہے کہ اس وقت کا معاشرہ زیادہ وسعت اور رحم دلی کی تصویر پیش کرتا تھا بمقابلہ اس کے جو بعض لوگ پج مسلم معاشرہ کے تعلق سے پیش کرنا چاہتے ہیں اور جو وحشت انگیز ہے۔
مسلم کی روایت ہے کہ ایک فارسی پڑوسی بہت اچھا سالن تیار کرتا تھا ایک دن اس نے رسول ۖ کے لئے کھانا تیار کیا پھر دعوت دینے آگیا۔ آپۖ نے دریافت کیا اور یہ (یعنی حضرت عائشہ)؟ فارسی نے کہا نہیں۔ رسول ۖ نے فرمایا تب نہیں، یعنی میں تنہا نہیں چلوں گا۔ فارسی پھر واپس آیا اور دعوت دی اور پپ نے پھر دریافت کیا اور یہ (یعنی حضرت عائشہ)؟ اس نے کہا نہیں۔ آپۖ نے بھی انکار کر دیا۔ پھر وہ تیسری بار بلانے آیا۔ آپۖ نے پھر دریافت کیا اور یہ؟ فارسی نے کہا ہاں۔ تب آپۖ حضرت عائشہ کے ساتھ اس کے گھر تشریف لے گئے۔
بخاری کی روایت ہے کہ حضرت ابو سعدی ساعدی نے اپنی شادی کی مناسبت سے آپۖ کی اور آپۖۖ کے ساتھیوں کی دعوت فرمائی تو کھانا تیار کرنے والی اور اسے پیش کرنے والی وہی خاتون (دلہن) تھیں انہوں نے پتھر کے ایک برتن میں رات سے کچھ کھجوریں بھگو رکھی تھیں جب آپۖ کھانے سے فارغ ہوگئے تو خاتون نے اس میں اپنے ہاتھ سے پانی میں ملا کر آپ کو پینے کے لئے پیش کیا۔ گویا اس دعوت میں خدمت کا فرض دلہن ہی نے انجام دیا۔
ظاہر ہے کہ محدود سطح پر یہ میل جول شریعت کی ہدایات کے دائرے میں پروقار ماحول میں ہوا۔ اور پر وقار طریقہ چہرے اور ہتھیلیوں کے علاوہ پورے جسم کی ستر پوشی کا تقاضا کرتا ہے۔
میں نے حدیث کی صحیح ترین کتابوں میں تقریباً ایک درجن حدیثیں پڑھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں اپنے چہرے اور ہتھیلیاں رسول ۖ کے سامنے بھی کھلی رکھتی تھیں اور آپۖ نے کسی ایک کو بھی انہیں ڈھانکنے کا حکم نہیں دیا
اس کیب اوجود کم سمجھ لوگ پر وقار لباس میں ہونے کے باوجود عورتوں کو برا بھلا کہتے ہیں اگر وہ چہرے کھلے رکھیں۔  ان کے خیال میں عورت کا چہرہ، ہاتھ اور آواز تک ستر ہے۔ حضرت سعد بن خولہ کا انتقال دسویں ہجری سال میں ہوا ان کی بیوی حاملہ تھیں۔ عدت ختم ہونے سے پہلے ہی ولادت ہوگئی۔ چنانچہ انہوں نے عدل والا سوگ ختم کر دیا۔ ایک شخص ابولسنا بل نامی ملے تو انہوں نے اس پر نکیر کی اور کہا کہ شاید تم شادی کرنا چاہتی ہو، یہ چار مہینے دس بعد ہی ممکن ہے۔ وہ رسولۖ کے پاس آئیں اور یہ واقعہ بتایا آپۖ نے فرمایا: ولادت کے ساتھ عدت ختم ہوگئی۔ یہ واقعہ صحیحین اور مسند احمد میں موجود ہے۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہ واقعہ آیت حجاب کے نزول سے پہلے کا ہے۔
امت اسلامیہ پر اسلام کے علاوہ کوئی اور چیز تھوپی جا رہی ہے اور ایسا علمی شواہد کی بنیاد پر نہیں بلکہ ذاتی محرکات کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔
یہاں امہات المومنین کے نقشِ قدم پر چلنے کی بات کہی جاتی ہے۔ اگر پیروی ہی مطلوب ہے تو رسولۖ اور آپ کے صحابہ نے ایسا کیوں نہیں کرایا اور کیوں چہروں کو بے اعتراض کے کھلا رہنے دیا۔
حقیقت یہ ہیکہ نبوی گھرانے کا انتظام خاص حالات کے تحت تھا خود قرآن نے کہا ہے:
ترجمہ: اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ (الاحزاب: ٣٢)
آپۖ کے بعد آپۖ کی ازواج مطہرات کے لئے شادی کی حرمت اور دہری جزا و سزا انہیں کے ساتھ خاص ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ ہر طرح کے لوگ حضورۖ کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے بعض بدوئوں میں جاہلت کے اثرات باقی تھے تو وہ عورتوں پر نگاہ ڈالنے کی کوشش کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے اپنے نبیۖ کی عزت و تکریم کے لیء سورہ احزاب میں حجاب کی آیت نازل فرمائی جس سے آپۖ کی ازواج مطہرات کے پاس جانے کی ممانعت ہوگئی اس طرح اب انہیں کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔
ترجمہ: ازواج نبیۖ کے لئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ان کے باپ، ان کے بیٹے، ان کے بھائی، ان کے بھتیجے، ان کے بھانجے، ان کے میل جول کی عورتیں اور ان کے مملوک ان کے گھروں میں آئیں اور اور اللہ سے ڈرو۔ ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے۔(احزاب: ٠٠)
ظاہر ہے یہ انتظام امہات المومنین کے ساتھ خاص تھا اس کے نزول کیب عکد مومن عورتیں کھلے چہروں کے ساتھ حنین میں جنگ کرتی ہوئی نظر آئیں اور مسجد میں  بہت سے موقعوں پر نظر آئیں۔ کسی نے ان پر نکیر نہیں کی۔ بعض لوگ عورتوں کے مردوں کو دیکھنے پر مطلقاً پابندی لگاتے ہیں اور یہ دلیل بناتے ہیں کہ رسولۖ نے اپنی بیویوں کا عبداللہ ابن ام مکتوم کو دیکھنا نا پسند فرمایا تھا۔ حافظ ابن حجر جیسا محدوث کہتا ہے کہ اس کی خاص وجہ تھی اور یہ کہ عبداللہ اندھے تھے اچھی طرح کپڑا پہننا  اور پورا بدن ڈھانکنا نہیں آتا تھا۔
یہ روایت چونکہ دیگر صحیح روایتوں کے مخالف تھی اس لئے ابن حجر کو یہ تاویل کرنی پڑی ان خجر نے اس حدیث کو''کیا تم بھی اندھی ہو'' اپنے خاص اسلوب میں مسترد کیا، یعنی سند سے صرف نظر کر کے متن کی تاویل کی، جبکہ ابن عربی اس روایت کو سند اور متن دونوں اعتبار سے مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حدیث کے ایک راوی بنیان حضرت ام سلمہ کے خادم ضرور تھے لیکن اہلِ علم کے درمیان معروف نہیں۔  اگر ان کی روایت بخاری کی حضرت عائشہ کے حبشیوں کا کھیل دیکھنے والی روایت کے خلاف جاتی ہے تو دوسرے واقعہ کے بھی خلاف ہے جس کی روایت مسلم نے کی ہے کہ حضورۖ نے ابن مکتوم کی چچا زاد بہن کو ان کے پاس عدت کی مدت گزارنے کا حکم دیا تھا۔
مسلم کی روایت کے مطابق فاطمہ بنت قیس کو ان کے شوہر عمرو بن حفص نے طلاق دے دی آپۖ نے انہیں ام شریک کے گھر عدت گزارنے کے لئے کہا پھر فرمایا کہ ام شریک کے پاس ہمارے ساتھی آتے جاتے ہیں (ام شریک ایک مالدار اور شاہ خرچ انصاری عورت تھیں ان کے پاس یہاں مہمان بھی کثرت سے ٹھہرتے رہتے تھے) ہوسکتا ہے تمہارا دوپٹہ گر جائے یا پنڈلیوں سے کپڑا ہٹ جائے تو لوگوں کو نظر آجائے اور تمہیں ناپسند ہو اس لئے اپنے چچا زاد بھائی ابن ام مکتوب کے پاس منتقل ہو جائو کہ اگر دوپٹہ بھی اتار دو گی تو وہ تمہیں نہیں دیکھ سکیں گے۔
شیخ ناصر الدین البانی کہتے ہیں کہ حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ چہرہ ستر نہیں ہے کیونکہ آپ نیفاطمہ بنت قیس کے لئے یہ جائز قرار دیا کہ لوگ انہیںا س حالت میں دیکھ لیں تو کوئی حرج نہیں کہ ان کے سر پر دوپٹہ ہو گویا سر کی طرح چہرہ ڈھانکنا واجب نہیں ہے۔ یہ واقعہ آپۖ کی زندگی کے پخرف حصہ کا ہے یعنی ٩ھ حجاب کی آیت کے نزول کے بعد کا۔
دسویں سال ہجری میں یعنی حجاب کی آیت کے نزول کے چھ برس بعد خثعمیة خاتون کا واقعہ پیش آیا جو ایک خوبصورت عورت تھیں اور حجةالوداع کے موقعہ پر قربانی کے دن آپۖ سے مناسکِ حج کے بارے میں کچھ دریافت کرنے آئیں۔ اس وقت آپۖ کے پیچھے سواری پر حضرت فض ابن عباس بیٹھے ہوئے تھے۔ خاتون کے حسن نے انہیں اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ مسند احمد میں حضرت فضل کا بیان ہے کہ میں ان کی طرف دیکھنے لگا۔ رسولۖ نے میرا چہرہ خاتون کے چہرے کی طرف سے پھیر دیا۔ آپۖ نے ایسا تین بار فرمایا کیونکہ میں باز نہیں آرہا تھا۔
کسی نے یہ روایت نہیں کی کہ حضورۖ نے چہرہ کھولنے کی وجہ سے خاتون کو ڈانٹا ہو یا بے شرمی اور فتنہ انگیزی کا الزام لگایا ہو لیکن شاہ پرست لوگ شاہ سے بھی زیادہ شاہ پرستی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ ان صحیح ححدیثوں کو ایک طرف لپیٹ کر ڈال دیتے ہیں اور ایسی ایسی بات بتانے لگتے ہیں کہ عورت سر سے پیر تک ڈھکی رہے، نہ اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے، نہ اس کی آواز سنی جائے کہ یہ آواز بھی ستر ہے اور وہ کہیں نکلے تو ایک آنکھ چھپائے رہے صرف ایک آنکھ کھول کر دیکھ سکتی ہے۔
اس غلو نے زمانے گزرنے کے ساتھ برے سماجی اثرات پیدا کئے جن سے عورت کی شخصیت کا قتل ہی نہیں ہوا، اسلام بھی بدنام ہو رہا ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسولۖ کی ازواج مطہرات کی پیروی میں عورت چہرے پر بھی نقاب ڈالے رہے تو کوئی حرج نہیں۔
ہم عرض کریں گے: اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ عورت پر اس نمونہ کی پروی میں شوہر کے انتقال کے بعد دوسری شادی پر بھی پابندی لگا دی جائے!!
ہم صرف صحیح اسلامی لائن کی پابندی چاہتے ہیں۔ نہ مغرب کی نمائش نہ مشرقی عورت کی کشی۔
اللہ تعالی کے لئے غضب و غیرت سر آنکھوں پر لیکن اضافی رووایات کے لئے غیرت مندی احمقانہ بات ہے۔
ہم پھر دہراتے ہیں کہ کتاب و سنت کی نصوص سر آنکھوں پر۔ کسی فقہی رائے کو تقدس حاصل نہیں۔ ہر ملک کے مسلمانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس فقہی رائے کو اپے لئے مناسب حال سمجھیں اسے اپنا لیں۔ کسی رائے کا چھوڑنا دین کو چھوڑنا نہیں بلکہ حقیقت تو یہ کہ انسانی میدان میں مسلمانوں میں رائج بہت سی چیزیں دین کے خلاف ہیں۔
اسی لئے میں اسے مسترد کرتا ہوں کہ اس زمانے میں اسلام کو اس طرح پیش کیا جائے کہ وہ نقاب عورت کی گواہی نہ ماننے، اسے کار چلانے کی اجازت نہ دینے وغیرہ ہی کا نام ہے اگرچہ میں اس پر زور دیتا ہوں کہ عورت کا کام اپنے خاندان میں اس کے تمام دیگر کاموں سے زیادہ اہم اور بنیادی ہے۔
تعداد ازدواج کی حقیقت کیا ہے؟
تعداد ازدواج کے سلسلے میں پہلا سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کے بر خلاف تعداد ازدواج کا موجد ہے؟ سارے ہی آسمانی مذاہب نے اس کی اجازت دی تھی۔ سب اسلام ہی سے کیوں جواب طلب کیا جاتا ہے۔
توریت میں کئی بیویاں رکھنے پر پابندی نہیں ہے۔ حضرت سلیمان کے گھر میں بیویوں اور لونڈیوں کی تعداد ایک ہزار تھی۔
حضرت عیسیٰ کے شاگردوں کی لکھی ہوئی انجیلوں میںب ھی اس پر کوئی پابندی نہیں۔ جو پابندی بعد میں لگائی گئی وہ مذہبی قانون نہیں حکومتی قانون تھا یا پھر کلیسا نے اپنے اجہتاد سے کیا۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ اب جب دیگر مذابہ نے اس پر پابندی لگاد ی ہے تو اسلام کوبھی لگا دینی چاہئے۔ یہاں دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی یہ مسئلہ حقیقی نوعیت رکھتا ہے۔ کتنے مسلمانوں کے گھرو میں ایک سے زیادہ بیویاں ہیں؟ مسلمانوں کی آبادی میں عورتوں کا تناسب ویسے بھی ابھی تک مردوں سے کم ہے۔ تب کہاں سے انہیں زیادہ بیویاں مل سکتی ہیں۔ پھر کیا مسلمانوں کی مالی حالت بھی ایسی ہے کہ وہ اتنا خرچ برداشت کرسکیں۔
سوال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کیا سارے یا اکثر مرد ایک بیوی ہی پر اکتفا کرتے ہیں اور کسی دوسری عورت سے رابطہ قائم نہیں کرتے؟ بلکہ مغربی تہذیب سے کے دلدادگان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ انہوں نے بہت ساری دیگر عورتوں سے طویل مدتی یا کم مدت کے لئے تعلقات قائم نہیں کیے؟
آخر دوسری عورت کو دوست کی حیثیت سے قبول کرنا پسندیدہ اور بیوی کی حیثیت سے قبول کرنا جرم ہے؟ کہ اگر اس سے اولاد پیدا ہوت و وہ بے باپ کے ماری، ماری پھرے، اپنے حقیقی باپ سے انتساب بھی نہ کرسکے؟ آخر دوسری عورت سے لطف اندوز ہونا جائز اور اس کی ذمے داری باقاعدہ قبول کرنا اور اسے وراثت وغیرہ حقوق دینا ناجائز ہے؟
ہمارے اہل کتاب بھائیوں نے حرام و حلال کے پیمانے ہی بدل لئے ہیں اور اپنی خواہشات کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ جنسی اعتبار سے انہوں نے سب کچھ یہاں تک کہ ہم جنسی تک جائز کر رکھی ہے۔
جہاں تک طلاق کی اجازت کا سوال ہے تو ذرا یہ روایات دیکھئے۔
حضرت عمر سے ایک آدمی نے کہا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے۔ انہوں نے پوچھا کیوں؟ اس نے جواب میں اسے پسند نہیں کرتا۔ حضرت عمر نے کہا کیا تمامگ ھرانے محبت و پسند کی بنیاد پر ہی برقرار ہیں؟ تب وفاداری اور برداشت کیا ہوئی؟
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو ایوب نے اپنی بیوی کو طلاق دینی چاہی، رسول اللہۖ سے اجازت طلب کی۔ آپۖ نے فرمایا یہ گناہ ہوگا تب انہوںنے طلاق کا ارادہ ترک کر دیا۔
ایسی ہی روایت حضرت ابو طلحہ کے بارے میں بھی ہے اور اس کی بنیاد اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لئے بہانے کی تلاش نہ کرو بے شک اللہ بڑا اور بالا تر ہے۔
کبھی طلاق کے بغیر کوئی چارہ کار ہی باقی نہ رہ جاتا کہ شیشہ ٹوٹنے کے بعد جڑ نہیں پاتا۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر معدودے چند مسلمان تعداد ازدواج کے سلسلے میں غلط طرز عمل اختیار کرتے ہیں اور عدل و انصاف کی پابندی یا اخراجات کی کمی کے باوجود ایک سے زیادہ شادی کر لیں تو اس کا دفاع کیا جائے۔ یہ بالکل ناقابلِ قبول ہے تعداد ازدواج کے لئے اسلام نے سخت ترین شرطوں کے ساتھ اجازت دی ہے اور اس طرح کے سماجی مسائل کا حل ضمیر کی بیداری اور اخلاق و کردار کی سلامتی سے تعلق رکھتا ہے۔ قانون سے نہیں۔
ہندوستان کے معروف صاحبِ قلم مولانا وحید الدین خاں لکھتے ہیں:
قرآن میں اجتماعی زندگی کے بارے میں جو احکام دئیے گئے ہیں، ان میں سے ایک حکم وہ ہے جو تعداد ازواج (چار عورتوں تک نکاح کرنے) کے بارے میں ہے۔ اس سلسلہ میں آیت کے الفاظ یہ ہیں:
ترجمہ: اگرت م کو اندیشہ ہو کہ تم یتیم بچوں کے معاملہ میں انصاف نہ کرسکو گے تو (بیوہ) عورتوں میں جو تم کو پسند ہوں ان میں دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو۔ اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ تم عدل نہ کرسکو گے تو ایک ہی نکاح کرو۔ (النسائ:٣)
یہ آیت غزوہ احد (شوال ٣ھ) کے بعد اتری۔ اس کا شانِ نزول یہ ہے کہ اس جنگ میں ٧٠ مسلمان شہید ہوگئے تھے۔ اس کی وجہ سے مدینہ کی بتی میں اچانک ٧٠ گھر مردوں سے خالی ہوگئے۔ نتیجتاً یہ صورتحال پیش آئی کہ وہاں سے بہت سے بچے یتیم اور بہت سی عورتیں بیوہ گئیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ اس معاشرتی مسئلہ کو کس طرح حل کیا جائے۔ اس وقت قرآن میں مذکورہ آیت اتری اور کہا گیا کہ جو لوگ استطاعت رکھتے ہوں، وہ بیوہ عورتوں سے نکاح کرکے یتیم بچوں کو اپنی سر پرستی میں لے لیں۔
اپنے الفاظ اور اپنے شانِ نزول کے اعتبار سے بظاہر یہ ایک وقتی حکم نظر آتا ہے۔ یعنی اس کا تعلق اس صورتحال سے ہے جنگ کے نتیجہ میں آبادی کے اندر عورتوں کی تعداد زیادہ ہوگئی تھی اور مردوں کی تعداد کم۔ مگر قرآن اپنے اطلق کے اعتبار سے ایک ابدی کتاب ہے۔ قرآن کے اعجاز کا پہلو یہ بھی ہے کہ وہ زمانی زبان میں ابدی حقیقت بیان کرتا ہے۔ اس کا یہ حکم بھی اس کی اسی صفت خاص کا مظہر ہے۔
زیادہ شادی کا معاملہ صرف مرد کی مرضی پر منحصر نہیں اسکی لازمی شرط (Insecapable Condition) یہ ہے کہ معاشرہ میں زیادہ عورتیں بھی موجود ہوں۔ اگر زمین پر ایک ہزار ملین انسان بستے ہوںاور ان میں ٥٠٠ ملین مرد ہوں اور ٥٠٠ ملین عورتیں تو ایسی حالت میں مردوں کے لئے ممکن ہی نہ ہوگا کہ وہ ایک سے زیادہ نکاح کریں۔ ایسی حالت میں ایک سے زیادہ نکاح صرف جبراً کیا جاسکتا ہے اور جبری نکاح اسلام میں جائز نہیں۔ اسلامی شریعت میں نکاح کے لئے عورت کی رضا مندی ہر حال میں ایک لازمی شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس طرح عملی طور پر دیکھئے تو قرآن کے مذکورہ حکم کی تعمیل صرف اس وقت ممکن ہے جب سماج میں وہ مخصوص صورت حال پائی جائے جو احد کے بعد مدینہ میں پائی جا رہی تھی، یعنی مردوں اور عورتوں کی تعداد میں نابرابری۔ اگر یہ صورتحال نہ پائی جا رہی ہو تو قرآن کا حکم عملاً ناقابلِ نفاذ ہوگا۔ مگر انسانی سماج اور انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قدیم مدینہ کی صورتحال محض وقتی صورت حال نہ تھی۔ یہ ایک ایسی صورتحال تھی جو اکثر حالات میں زمین پر موجود رہتی ہے۔ مذکورہ ہنگامی حالت ہی ہماری دنیا کی عموملی حالت ہے۔ یہ قرآن کے نازل کرنے والے کے عالم الغیب ہونے کا ثبوت ہے کہ اس نے اپنی کتاب میں ایک ایسا حکم دیا جو بظاہر ایک ہنگامی حکم تھا مگر وہ ہماری دنیا کے لئے ایک ابدی حکم بن گیا۔
تعداد کی نابرابری:
اعداد و شمار بتاتے ہیں۔ کہ بااعتبار پیدائش عورت اور مرد کی تعداد تقریباً یکساں ہوتی ہے۔ یعنی جتنے بچے تقریباً اتنی ہی بچیاں مگر شرح اموات (Mortality) کے جائزہ سے معلوم ہوا ہے کہ عورتوں کے مقابلہ میں مردوں کے درمیان کی شرح زیادہ ہے۔ یہ فرق بچپن سے لے کر آخر عمر تک جاری رہتا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (١٩٨٤) کے مطابق عموملی طور پر موت کا خطرہ عمر کے ہر محلہ میں عورتوں کے لئے کم پایا گیا ہے اور مردوں کے لئے زیادہ:
In general, the risk of death at any given age is less for females than for males (VII/37)
اکثر حالات میں سماج کے مندر عورتوں کی تعداد زیادہ ہونا اور مردوں کی تعداد کا کم ہونا مختلف اسباب سے ہوتا ہے۔ مثلاً جب جنگ ہوتی ہے تو اس میں زیادہ تر صرف مرد مارے جاتے ہیں۔ پہلی عالمی جنگ (1914-18ئ) میں آٹھ ملین (اسی لاکھ) سے زیادہ فوجی مارے گئے۔ شہری لوگ جو اس جنگ میں ہلاک ہوئے وہ اس کے علاوہ ہیں۔ زیادہ تر مرد تھے۔ دوسری عالمی جنگ (1939-45) میں ساڑھے چھے کروڑ آدمی ہلاک ہوئے یا جسمانی طور پر ناکارہ ہوگئے۔ یہ سارے لوگ زیادہ تر مرد تھے۔ عراق، ایران جنگ (1979-1988) میں ایران کی 82ہزار عورتیں بیوہ ہوگئیں۔ عراق میں ایسی عورتوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہے جن کے شوہر اس دس سالہ جنگ میں ہلاک ہوئے۔
اسی طرح مثال کے طور پر جیل اور قید کی وجہ سے بھی سماج میں مردوں کی تعداد کم  اور عورتوں کی زیادہ ہو جاتی ہے۔ امریکہ میں ہر روز تقریباً تیرہ لاکھ آدمی کسی نہ کسی جرم میں پکڑے جاتے ہیں ان میں سے ایک تعداد وہ ہے جو لمبی مدت کے لئے جیل میں ڈال دی جاتی ہے۔ ن سزا یافتہ قیدیوں میں بھی ٩٧فیصد مرد ہی ہوتے ہیں۔
اسی طرح جدید صنعتی نظام نے حادثات کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔ موجودہ زمانہ میں حادثاتی موتیں روز مرہ کا معمول بن گئی ہیں۔ سڑک کے حادثے، ہوائی حادثے اور دوسرے مشینی حادثے ہر ملک میں اور ہر روز ہوتے رہتے ہیں۔ جدید صنعتی دور میں یہ حادثات اتنے زیادہ بڑھ گئے ہیں کہ اب سیفٹی انجینئرنگ (Safety Engeneering) کے نام سے ایک مستقل فن وجود میں آگیا ہے۔ ١٩٦٧ء کے اعداد و شمار کے مطابق، اس ایک سال میں پچاس ملکوں کے اندر مجموعی طور پر ٠٠٠،٧٥ حادثاتی موتیں واقع ہوئیں (EB-16/37) یہ سب زیادہ تر مرد تھے۔
صنعتی حادثات کے  موتوں میں سیفٹی انجینئرنگ کے باوجود پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ مثال کے طور پر ہوائی حادثات جتنے ١٩٨٨ء میں ہوئے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح تمام صنعتی ملکوں میں مستقل طور پر اسلحہ سازی کے تجربات ہو رہے ہیں۔ ان میں برابر لوگ ہلاک ہوتے رہتے ہیں۔ ان ہلاک شدگان کی تعداد کبھی نہیں بتای جاتی تاہم یہ یقینی ہے کہ ان میں بھی تمام تر صرف مرد ہی ہیں جو ناگہانی موت کا شکار ہوتے ہیں۔
اسی طرح کے مختلف اسباب کی بنا پر عملی صورت حال اکثری یہی ہوتی ہے کہ سماج میں عورتوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہو اور مردوں کی تعداد نسبتاً کم ہوجائے۔ امریکہ کی سوسائٹی نہیات ترقی یافتہ سوسائٹی سمجھی جاتی ہے مگر وہاں بھی یہ فرق پوری طرح پایا جاتا ہے۔ ١٩٨٧ء کے اعداد و شمار کے مطابق، امریکہ کی آبادی کا ہر مرد شادی دشہ ہو جئے تو اس کے بعدب ھی امریکہ میں تقریباً ٧٨ لاکھ عورتیں ایسی باقی رہیں گی جن کے لئے ملک میں غیر شادی شدہ مرد موجود نہ ہوں گے جن سے وہ نکاح کر سکیں۔
ایک سے زیادہ نکاح کیلئے صرف یہی کافی نہیں کہ آبادی کے اندر عورتیں زیادہ تعداد میں موجود ہوں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی لازمی طور پر ضروری ہے کہ جس عورت سے نکاح کرنا مططوب ہے وہ خود بھی آزادانہ مرضی سے اس قسم کے نکاح کے لئے پوری طرح راضی ہو۔ اسلام میں عورت کی رضا مندی مسلمہ طور پر نکاح کے لئے شرط ہے۔ کسی عورت سے زبردستی نکاح کرنا جائز نہیں۔ اسلام کی نمائندہ تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسی مثال نہیں ہے جب کسی مرد کو یہ اجازت دی گئی ہو کہ وہ کسی عورت کو جبراً اپنے نکاح میں لے آئے۔
حدیث میں آیا ہے کہ کنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لے لی جائے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ ایک لڑکی رسولۖ کے پاس آئی اور کہا کہ اس کے باپ نے اس کی مرضی کے خلاف اس کا نکاح کر دیا ہے۔ آپ نے اس کو اختیار دیا کہ چاہے تو نکاح کو باقی رکھے اور چاہے تو اس کو توڑ دے۔
حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ بریرہ کا شوہر ایک سیاہ فام غلام تھا۔ اس کا نام مغیث تھا، گویا کہ میں مغیث کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ مدینہ کے راستوں میں بریرہ کے پیچھے چل رہا ہے۔ وہ رو رہا ہے اور اس کے آنسو اس کی داڑھی تک بہہ رہے ہیں۔ رسولۖ نے عباس سے کہا کہ اے عباس! کیا تم کو بریرہ کے ساتھ مغیث کی محبت اور مغیث کے ساتھ بریرہ کی نفرت پر تعجب نہیں؟ پھر رسولۖ نے بریرہ سے کہا کہ کاش تم اس کی طرف رجوع کرلو۔ بریرہ نے کہا کہ آپ مجھ کو اس کا حکم دیتے ہیں؟ آپۖ نے فرمایا کہ صرف سفارش کر رہا ہوں۔ بریرہ نے کہا: مجھے اس کی حاجت نہیں (بخاری)
تعداد ازدواج کا ایک واقعہ وہ ہے جو حضرت عمر فاروق کی خلافت کے زمانہ میں پیش آیا۔ ایک بیوہ خاتون ام ابان بن عتبہ کو چار مسلمانوں کی طرف سے نکاح کا پیغام ملا جو سب کے سب شادی شدہ تھے۔ ان چار حضرات کے نام یہ ہیں عمر بن الخطاب، علی بن ابی طالب، زبیر اور طلحہ، ام ابان نے طلحہ کا پیغام قبول کرلیا اور باقی تینوں کے لیے انکار کر دیا۔ اس کے بعد ام ابان کا نکاح طلحہ سے کر دیا گیا۔
یہ واقعہ مدینو (اسلامی دارالسلطنت) میں ہوا۔ جن لوگوں کے پیغام کو رد کیا گیا، ان میں وقت کے امیر المومنین کا نام بھی شامل تھا مگر اس پر کسی نے تعجب یا بیزاری کا اظہار نہیں کیا۔ اور نہ اس بنا پر وہاں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام میں عورت کو اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ یہ عورت کا ایک ایسا حق ہے جس کو کوئی بھی اس سے چھین نہیں سکتا حتی کہ وقت کا حکمراں بھی نہیں۔
ان احکام اور واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں چار کی حد تک نکاح کرتنے کی اجازت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی مرد چار عورتوں کو پکڑ کر اپنے گھر میں بند کرلے۔ یہ دوطرفہ رضا مندی کا معاملہ ہے۔وہی عورت کسی شادی شدہ مرد کے نکاح میںلائی جاسکتی ہے جو خود اس کی دوسری یا تیسری بیوی بننے پر بلا اکراہ راضی ہو اور جب یہ معاملہ تمام تر عورت کی رضا مندی سے انجام پاتا ہے تو اس پر کسی کو اعتراض کرنے کا کیا حق؟ موجودہ زمانہ میں آزادی انتخاب Freedom Of choiceکو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اسلامی قانون میں یہ قدر پوری طرح موجود ہے۔ البتہ ''مساواتِ نسواں'' کے علم بردار آزادیٔ انتخاب کو پابندیٔ انتخاب کے ہم معنی بنا دینا چاہتے ہیں۔
مسئلہ کا حل نہ کہ حکم:
مذکورہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عورت اور مرد کی تعداد میں برابری ہماری دنیا کا ایک مستقل مسئلہ  ہے۔ وہ جنگ کی حالت میں بھی پایا جاتا ہے اور جنگ نہ وہنے کی حالت میں بھی۔ اب سوال یہ ہے کہ جب دونوں صنفوں کی تعداد میں نابرابری ہے تو اس نابرابری کے مسئلہ کے کس طرح حل کیا جائے۔ ایک زوجگی کے اصول پر عمل کرنے کے نتیجہ میں جن بیوہ یا غیر بیوہ عورتوں کو شوہر نہ ملے وہ اپنی فطرت کے تقاضے پورے کرنے کے لئے کیا کریں؟ وہ سماج میں کس طرح اپنے لئے ایک با عزت زندگی حاصل کریں؟
ایک طریقہ وہ ہے جو ہندوستان کی روایات میں بتایا گیا ہے یعنی ایسی (بیوہ) عورتیں اپنے آپ کو جلا کر اپنے وجود کو ختم کرلیں تاکہ نہ ان کا وجود رہے اور نہ ان کے مسائل۔ یا پھدر ایسی عورتیں گھر سے محروم ہو کر سڑکوں کی بے کس زندگی گزارنے پر راضی ہو جائیں۔ اس اصول پر عمل کرنے کی بنا پر ہندو سماج کا کیا حال ہوا ہے اس کی تفصیل جاننا ہو تو انڈیا ٹوڈے (١٥نومبر ١٩٨٧ئ) کی ٨ صفحات کی با تصویررپورٹ ملاحظہ فرمائیں جو اس بامعنی عنوان کے تحت شائع ہوئی ہے کہ ''بیوائیں، انسانیت کا برباد شدہ ملبہ Widows: Wrecks of humanity''
اس حل کے بارے میں یہاں کسی مزید گفتگو کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ مجھے یہ امید نہیں کہ موجودہ زمانہ میں کوئی با ہوش آدمی اس طریقہ کی وکالت کرسکتا ہے یا کسی بھی درجہ میں وہ اس کو مذکورہ مسئلہ کا حل سمجھ سکتا ہے۔
دوسری صورت وہ ہے جو مغربی ملکوں کی ''مہذب سوسائٹی'' میں رائج ہے یعنی کسی ایک مرد کی دوسری منکوحہ بیوی بننے ضر راضی نہ ہونا البتہ بہت سے مردوں کی غیر منکوچہ بیوی بن جانا۔
دوسری عالمی جنگ میں یورپ کے کئی ملک لڑائی میں شریک تھے مثلاً جرمنی، فرانس، انگلینڈ وغیرہ۔ ان میں مرد بڑی تعاد میں مارے گئے۔ چنانچہ جنگ کے بعد مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان ملکوں میں جنسی بے راہ روی عام ہوگئی یہاں تک کہ بہت سے بے شوہر عورتوں کے گھروں کے سامنے اس قسم کے بورڈ لکھے ہوئے نظر آنے لگے کہ رات گزارنے کے لیے ایک مہمان چاہئے Wanted an evening guestیہ صورتحال مغرب میں جنگ کے بعد مختلف صورتوں میں بدستور باقی ہے۔ اب اس کو باقی رکھنے کا سبب زیادہ تر صنعتی اور مشینی حادثات ہیں جس کی تفصیل اوپر درج کی گئی۔
غیر قانونی تعداد ازواج:
جن قوموں میں تعداد ازواج کو ناپسند کیا جاتا ہے ان کو اس کی یہ قیمت دینی پڑی کہ ان کے یہاں اس سے بھی زیادہ ناپسندیدہ ایک چیز رائج ہوگئی جس کو مسٹریس (Mistress) کہا جاتا ہے انن قوموں کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اس فطری عمل کو روک سکیں جس کے نتیجہ میں اکثر معاشرہ میں عورتوں کی تعداد زیادہ اور مردوں کی تعداد کم ہو جاتی ہے۔ ایک طرف آبادی کے تناسب میں یہ فرق اور دوسری طرف تعداد ازواج پر پابندی، اس دو طرفہ مسئلہ نے ان کے یہاں مسٹریس کی برائی (بالفاظ دیگر، غیر قانونی تعداد ازواج) کو پیدا کر دیا۔
مسٹریس (Mistress) کی تعریف ویبسٹرسٹ ڈکشنری  (Webster's Dictionary) میں یہ کی گئی ہے کہ وہ عورت جو کسی مرد سے جنسی تعلق رکھے، اس کے بغیر کہ اس سے اس کا نکاح ہوا ہو:
A woman who had sexual intercourse with and often supperted a man for a more or less extended period of time without being married to him: paramour
مسٹریس کا یہط ریقہ آج بشمول ہندوستان، تمام ان لمکوں میں رائج ہے جہاں تعداد ازواج پر قانونی پابندی ہے یا سماجی طور پر اس کو برا سمجھا جاتا ہے۔ ایسی حالت میں اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ تعداد ازواج کو اختیار کیا جائے یا نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آبادی میں عورتوں کی غیر مناسب تعداد کو کھپانے کے لئے قانونی تعداد ازواج کا طریقہ اختیار کیا جائے، یا غیر قانونی تعداد ازواج کا۔
اسلامی طریقہ:
اس کے بعد وہ طریقہ ہے جو اسلامی شریعت میں اس مسئلہ کے حل کے لئے بتایا گیا ہے کہیعنی مخصوص شرائط کے ساتھ کچھ مردوں کے لئے ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت۔ تعداد ازواج کا یہ اصول جو اسلامی شریعت میں مقرر کیا گیا ہے، وہ در اصل عورتوں کو مذکورہ بالا قسم کے بھیانک انجام سے بچانے کے لئے ہے۔ بظاہر اگرچہ یہ ایک عام حکم ہے، لیکن اگر اس حیقت کو سامنے رکھئے کہ عملی طور پرکوئی عورت کسی مرد کی دوسری یا تیسری بیوہ بننے پر ہنگامی حالات ہی میں راضی ہوسکتی ہے نہ کہ معمول کے حالات میںخ تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ حکم در اصل ایک سماجی مسئلہ کے حل کے طور پر واضح کیا گیا ہے۔ وہ فاضل عورتوں کو جنسی آوارگی سے بچا کر معقول اور مستحکم خاندانی زندگی گزارنے کا ایک انتظام ہے بالفاظ دیگر یہ یک زوجگی کے مقابلہ میں تعداد ازواج کو اختیار کرنے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ تعداد ازواج اور جنسی بربادی کے درمیان انتخاب کا مسئلہ پیدا ہونے کی صورت میں تعداد ازواج کو اختیار کرنا ہے۔
تعداد ازواج کے حکم کو اگر مجرو طور پر دیکھا جائے تو وہ ایک ایسا حکم معلوم ہوگا جو مردوں کی موافقت میں بنایا گیا ہو لیکن اگر اس کو سماج کی عملی صورتحال کے اعتبار سے دیکھئے تو خود عورتوں کی موافقت میں ہے۔ وہ عورتوں کا مسئلہ ایک زیادہ معقول اور فطری بندوبست (Arrangement) ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
اسلام میں تعدادا ازواج کی اجازت مردوں کی جنسی خواہش کی تکمیل کے لئے نہیں ہے۔ یہ در اصل ایک مسئلہ کو حل کرنے کی عملی تدبیر ہے۔ مردوں کے لئے ایک سے زیادہ نکاح کرنا اسی وقت ممکن ہوگا جب آبادی میں مردوں کے مقابلہ میں عورتیں زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہوں۔ اگر عورتوں کی تعداد نسبتاً زیادہ نہ ہو تو اس حکم پر عمل کرنا سرے سے ممکن نہ ہوگا۔ پھر کیا اسلام مردوں کی خواہش کی تکمیل کے لئے ایک ایسا اصول بتاسکتا ہے جو سرے سے قبالِ حصول اور قابلِ عمل ہی نہ ہو۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (١٩٨٤ئ) نے بجا طور پر کلکھا ہے کہ تعداد ازواج کے اصول کو اختیار کرنے کی ایک وجہ کسی تناسب میں عورتوں کی زیادتی (Suplus of women) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو قومیں تعداد ازواج کی اجازت دیتی ہیں یا اس کو پسند کرتی ہیں ان میں بھی مردوں کی بہت بڑی اکثریت فاضل عورتوں کی محدود تعداد کی وجہ سے ایک ہی بیوی پر اکتفا کرتی ہے:
Among most peoples who permit of prefer it the large majority of men live in monogamy becase of the limited number of women(VII/97)
اسلام میں ایک سے زیادہ بیوی رکھنے کی اجازت بطور آئیڈیل نہیں ہے۔ یہ درحقیقت ایک عملی ضرورت (Practical Reason) کی وجہ سے ہے اور وہ یہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آبادی میں مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس زیادہ تعداد کے باعزت حل کے لئے تعداد ازواج کا اصول مقرر کیا گیا ہے یہ ایک عملی حل ہے نہ کوئی نظریاتی آئیڈیل۔
خلاصۂ کلام:
وپر جو بحث کی گئی، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابتدائی پیدائش کے اعتبار سے مرد اور عورت اگرچہ یکساں تعداد میں پیدا ہوتے ہیں مگر بعد میں پیش آنے والے مختلف اسباب کی بنا پر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ معاشرہ میں مردوں کی تعداد کم ہو جاتی ہے اور عورتوں کی تعداد زیادہ۔ سوال یہ ہے کہ اس مئلہ کا حل کیا ہو؟ جنسی نابرابری کی ناگزیر صورتحال میں دونوں جنسوں کے درمیان صحت مند تعلق کس طرح قائم کیا جائے؟
یک زوجگی (ایک مرد، ایک عورت) کے اصول نکاح پر عمل کرنے کی صورت میں لاکھوں کی تعداد میں ایسی عورتیں باقی رہتی ہیں جن کے لئے معاشرہ میں ایسے مرد موجود نہ ہوں جن سے وہ نکاح کا تعلق قائم کر کے باعزت زندگی گزارسکیں۔ یک زوجگی کا مطلق اصول کسی کو بظاہر خوشنما نظر آیٔکتا ہے مگر واقعات بتاتے ہیں کہ موجودہ دنیا میں وہ پوری طرح قابلِ عمل نہیں، گویا ہمارے لئے انتخاب (Choice) ایک زوجہ اور متعدد زوجہ کے درمیان نہیں ہے بلکہ خود متعدد زوجہ کی ایک قسم اور دوسری قسم کے درمیان ہے۔
اب ایک صورت یہ ہے کہ یہ ''فاضل'' عورتیں جنس پوارگی یا معاشرتی بربادی کے لئے چھوڑ دی جائیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اپنی آزادانہ مرضی سے ایسے مردوں کے ساتھ ازدواجی رشتہ میں وابستہ ہو جائیں جو ایک سے زیادہ بیویں کے ساتھ عدل کرسکتے ہوں۔
مذکورہ بالا دو ممکن صورتوں میں سے اسلام نے دوسری صورت کا انتخاب کیا ہے اور غیر اسلام نے پہلی صورت کا۔ اب ہر شخص خود فیصلہ کرسکتا ہے کہ دونوں میں سے کون سا طریقہ زیادہ با عزت اور زیادہ معقول ہے۔
اختلاطِ مرد و زن
اختلاط مرد و زن کا ذکر آتے ہی ذہن مغرب میں رائج عورتوں اور مردوں کے درمیان سماجی تعلقات کے گھنائونی تصویر آجاتی ہے بلاشبہ ان تعلقات کی نوعیت کو کوئی دین پسند نہیں کرتا۔ عام لباسوں میں اظہار زیب و زینت لازمی بن گیا ہے۔ گویا عورت اس وقت تک خوش نہیں ہوسکتی جب تک لوگوں کی توجہ اپنی طرف نہ کھینچ لے۔ پھر عورتوں کو ایسے کاموں میں لگنا پڑتا ہے جہاں خلوت ہوتی ہے اور شریف عورت کو اپنی عزت بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔ مغربی تہذیب نے رقص کی آزادی اور لذات پرستی کی تسکین کے لئے بہت ساری چیزوں کو مباح کر کے خاندان کی قیمت ہی گرادی ہے۔
اس جاہلیت کے بیچ دین کی جگہ کیا ہے؟ یہودیت فلسطین کو یہودیا نے اور عربوں کو نیست و نابود کرنے میں مشغول ہے۔ عیسائیت مسلم ممالک پر صلیبی حملوں میں لگی ہوئی ہے اور ہر طریقہ سے انہیں اسلام سے بیگانہ کر دینا چاہتی ہے۔ ان کے عوام کی دینداری کی حقیقت بس اتنی سی ہے کہ سال میں چند تہوار منالیے جائیں۔
آج کی غالب انسانی تہذیب نے جسمانی لذتوں کوف طرف حقوق سمجھ لیا ہے، اور اس میں اسے اخلاق و کردار کے منافی کوئی بات نظر نہیں آتی اس کے بعد اس نے اپنی سرگرمیوں کا رخ فوجی و شہری سائنسی میدانوں کی طرف موڑ کر لمبی چھلانگ لگالی ہے۔
دوسری طرف ملت اسلامیہ نے اسلامی فطری طریقہ چھوڑ دیا۔ شادی کی راہ میں سخت اقتصادی اور سماجی دشواریاں کھڑی کر دیں اور ایسی روایات اپنالیں جن میں مرد عورت ایک دوسرے کو دیکھ بھی نہ سکیں۔
غور سے دیکھئے تو یہ روایات ریاکاری، جہالت بعض نسلوں کے جذبۂ برتری اور تدین کے دعوی پر مبنی ہیں۔
میرے خیال میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ مغرب کی روایات شرف سے عاری ہیں تو مشرق کی روایات نا سمجھی پر مبنی ہیں اور دونوں نے تباہیاں مچا رکھی ہیں۔
ہمیں اسلامی روایات کو ان کے سرچشموں اور اولین اسلاف کے عمل کی روشنی میں دیکھنا چاہیے، ان لوگوں کے گمان کی روشنی میں نہیں جو منحرف ہو کر یہ چاہتے ہیں کہ عورت کو روحانی اعتبار سے زندہ درگور کردیں جیسے ان کے آباء و اجداد نے اسے جمسانی طور پر زندہ دفن کیا تھا۔
اولین اسلاف کے دور میں عورتیں دن میں پانچ بار گھر سے مسجد کے درمیان چکر لگاتی تھیں یہ ان کے ضمیر پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ اسے و اپنی گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی میں حارج نہ ہونے دیں۔ پھر مسجد میں مردوں اور عروتوں کی صفیں الگ الگ ہوتی تھیں۔ اسے اختلاط قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پھر نگاہیں جھکائے رکھنے اور پرہیز گاری سے کام لینے کی سب کو ہدایت ہے اگر ایک بار نگاہ پڑ بھی جائے تو دوبارہ نگاہ ڈالنے کی اجازت نہیں۔
مسلمان عورت پر وقار انداز میں بازار، مدرسہ اور مسجد جایا کرتی تھی۔
ترمذی کی روایت ہے کہ حضرت اسمائ بنت یزید نے فرمایا رسولۖ ہم عورتوں کے پاس سے گزے تو ہمیں سلام کیا۔
صحابیات اسی پروقار انداز میں فوج کے ساتھ نکلتی تھیں، فوجیوں کے لئے کھانا تیار کرتی تھیں، مریضوں کی دیکھب ھال کرتی تھیں اور شہیدوں کو منتقل کرتی تھیں انہیں رسول اللہ تحفوں کی شکل میں کچھ معاوضہ بھی دیتے تھے۔
میں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دونوں جنسوں کے درمیان تعلقات سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ دلوں میں ایمان کو جاگزیں کیا جائے، پھر اس کی بنیاد پر اخلاص تو کل، وفاداری کنارہ کشی اور شوق و خوف کے جذبے پیدا کئے جائیں، پھر سچائی، نیکی، اخلاق اور وفاداری و رحمدلی پر مبنی سماجی کردار پیدا کیا جائے۔
ان چیزوں کے بغیر جو نفسیاتی امراض پیدا ہوتے ہیں وہ جنسی بے چینی سے زیادہ قوموں کے لء مہلک ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان باہم کینہ و نفرت دشمنوں کی سرگرمیوں سے بھی زیادہ خراب اثر ڈالتے ہیں۔
یہ حماقت ہی ہوگی کہ دل کی خباثت اور دوسروں سے حسدکے مقابلے میں چہر کھولنا ہی زیادہ خطرناک سمجھا جائے۔

No comments:

Post a Comment