کوا
کوا گرائمہ میں ہمیشہ مذکر استعمال ہوتا ہے۔
کوا صبح صبح موڈ کراب کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ایسا موڈ جو کوے کے بغیر بھی کوئی خاص اچھا نہیں ہوتا۔ علی الصبح کا شور انسان کو مذہب کے قریب لاتا ہے اور نروان کی خواہش کی شدت پیدا ہوتی ہے۔
کوا گا نہیں سکتا اور کوشش بھی نہیں کرتا۔ وہ کائیں کائیں کرتا ہے۔ کائیں کے کیا معنے ہیں؟ میرے خیال میں تو اس کا کوئی مطلب نہیں۔
کوے کالے ہوتے ہیں۔ برفانی علاقوں یں سفید یا سفیدی مائل کو انہیں پایا جاتا ہے۔ کوا سیاہ کیوں ہوتا ہے؟ اس کا جواب بہت مشکل ہے۔
پہاڑی کوا ڈیڑھ فٹ لمبا اور وزنی ہوتا ہے۔ میدان کے باشندے اس سے کہیں چھوٹے اور مختصر کوے پر قانع ہیں۔ کوے خوبصورت نہیں ہوتے لیکن پہاڑی کوا تو باقاعدہ بدنما ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ ممعولی کوے سے حجم میں زیادہ ہوتا ہے۔
کوے کا بچپن گھونسلے میں گزرتا ہے جہاں اہم واقعات کی خبریں ذرا دیر سے پہنچتی ہیں۔ اگر وہ سیانا ہو تو بقیہ عمر وہیں گزار دے لیکن سوشل بننے کی تمنا اسے آبادی میں کھینچ لاتی ہے۔ جو کوا ایک مرتبہ شہر میں آجائے وہ ہر گز پہلا سا کوا نہیں رہتا۔
کوے کی نظر بڑی تیز ہوتی ہے۔ جن چیزوں کو کوا نہیں دیکھتا وہ اس قابل نہیں ہوتیں کہ انہیں دیکھا جائے۔ کوا بے چین رہتا ہے اور جگہ جگہ ا ڑ کر جاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زدگی بے ح مختص ہے چنانچہ وہ سب کچھ دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ کون نہیں چاہتا؟
کبھی کبھی کوے ایک دوسرے میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ در اصل کوا دوسرے کوے کو اس نظر سے نہیں دیکھتا جس سے ہم دیکھتے ہیں۔ دوسرے پرندوں کی طرح کووں کے جوڑوں کو کبھی چہلیں کرتے نہیں دیکھا گیا۔ کواکبھی اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔ یا کرتا ہے؟ کوے کو لوگ ہمیشہ غلط سمجھتے ہیں سیاہ رنگ کی وجہ سے اسے پسند نہیں کیا جاتا۔ لوگ تو بس ظاہری رنگ روپ پر جاتے ہیں۔ باطنی خوبیوں اور کریکٹر کو کوئی نہیں دیکھتا۔ کوا کوئی جان بوجھ کر تو سیاہ نہیں ہوا۔ لوگ چڑیوں' مرغیوں اور کبوتروں کو دانہ ڈالتے وقت کووں کو بھگا دیتے ہیں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ اس طرح نہ صرف کووں کے لاشعور میں کئی ناخوشگوار باتیں بیٹھ جاتی ہیں بلکہ ان کی ذہنی نشوونما پر برا اثر پڑتا ہے۔
کوا باورچی خانے کے پاس بہت مسرور رہتا ہے۔ ہر لحظے کے بعد کچھ اٹھا کر کسی اور کے لیے کہیں پھینک آؤا ہے اور پھر درخت پر بیٹھ کر سوچتا ہے کہ زندگی کتنی حسین ہے۔
کہیں بندوق چلے تو کوے اسے اپنی ذاتی توہین سمجھتے ہیں اور دفعتاً لاکھوں کی تعداد میں کہیں سے آجاتے ہیں۔ اس قدر شور مچاتے ہیں کہ بندوق چلانے والا مہینوں پچھتاتا رہتا ہے۔
بارش ہوتی ہے تو کوے نہاتے ہیں لیکن حفظان صحت کے اصولوں کا ذرا خیال نہیں رکھتے کوا سوچ بچار کے قریب نہیں پھٹکتا۔ اس کا عقیدہ ہے کہ زیادہ کفر کرنا اعصابی بنا دیتا ہے۔ کوے سے ہم کئی سبق سیکھ سکتے ہیں۔
بلبل
بلبل ایک روایتی پرندہ ہے جو ہر جگہ موجود ہے سوائے وہاں کے جہاں اسے ہونا چاہئے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ آپ نے چڑیا گھر میں بلبل دیکھی ہے تو یقیناً کچھ اور دیکھ لیا ہے۔ ہم ہر خوش گلو پرندے کو بلبل سمجھتے ہیں۔ قسور ہمارا نہیں ہمارے ادب کا ہے۔
شاعروں نے نہ بلبل دیکھی ہے نہ اسے سنا ہے۔ کیوں اصلی بلبل اس ملک میں نہیں پائی جاتی۔ سنا ہے کہ کوہ ہمالہ کے دامن میں کہیں کہیں بلبل ملتی ہے لیکن کوہ ہمالیہ کیدامن میں شاعر نہیں پائے جاتے۔
عموماً SONNET وہ نظم ہوتی ہے جسے محض بلبل کے لیے لکھا گیا ہو… خوش قسمتی سے بلبل ان پڑھ ہے۔
عام طور پر بلبل کو آہ و زاری کی دعوت دی جاتی ہے اور رونے پیٹنے کے لیے اکسایا جاتا ہے۔ بلبل کو ایسی باتیں بالکل پسند نہیں۔ ویسے بلال ہونا کافی مضحکہ خیز ہوتاہے۔
بلبل اور گلاب کے پھول کی افواہ کسی شاعر نے اڑائی تھی جس نے رات گئے گلاب کی ٹہنی پر بلبل کو نالہ و شیون کرتے دیکھا تھا۔ کم از کم اس کا خیال تھا وہ پرندہ بلبل ہے اور وہ چیز نالہ و شیون… در اصل رات کو عینک کے بغیر کچھ کا کچھ دکھائی دتا ہے۔
بلبل پروں سمیت محض چند انچ لمبی ہوتی ہے۔ یعنی اگر پروں کو نکال دیا جائے تو کچھ زیادہ نہیں بچتی۔
بلبل کی پرائیویٹ زدگی کے متعلق طرح طرح کی باتیں مشہور ہیں۔ بلبل رات کو کیوں گاتی ہے؟ پرندے جب رات کو گائیں تو ضرور کچھ مطلب ہوتا ہے۔ وہ اتنی رات گئے باغ میں اکیلی کیوں جاتی ہے! بلبل کو چہچہاتے سن کر دور کہیں ایک اور بلبل چہچہانے لگتی ہے۔ پر کوئی بلبل نہیں چہچہاتی۔ وغیرہ… ہمارے ملک میں تو لوگ بس سکینڈل کرنا جانتے ہیں۔ اپنی آنکھوں سے دیکھے بغیر کسی چیز کا یقین نہیں کرنا چاہتے۔
کبھی کبھی بلبل غلطیاں کرتی ہے لیکن اس سے فائدہ نہیں اٹھاتی۔ چنانچہ پھر غلطیاں کرتی ہے… سیاست میں تو یہ عام ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ بلبل کے گانے کی وجہ سے اس کی غمگین خانگی زندگی ہے جس کی وجہ یہ ہر وقت کا گانا ہے۔ در اصل بلبل ہمیں محظوظ کرنے کے لیے ہر گز نہیں گاتی۔ اسے اپنے فکر ہی نہیں چھوڑتے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بلبل گاتے وقت بل۔ بل۔بلبل۔ بل۔ کی سی آوازیں نکالتی ہے… یہ غلط ہے۔
بلبل پکے راگ گاتی ہے یا کچے؟ بہر حال اس سلسلے میں وہ بہت سے موسیقاروں سے بہتر ہے۔ ایک تو وہ گھنٹے بھر کا الاپ نہیں لیتی۔ بے سری ہو جائے تو بہانے نہیں کرتی کہ ساز والے نکمے ہیں۔ آج گلا خراب ہے۔ آپ تنگ آاجئیں تو اسے خاموش کراسکتے ہیں… اور کیا چاہئے؟
جہاں تیتر…، سحبان تیر قدرت'' پپیہا…' پی کہاں'' اور گیدڈ پدرم سلطان بود' کہتا ہوا سنا گیا ہے۔ وہاں بلبل کے متعلق وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کسی مصرعے کے ایک حصے پر اٹک گئی ہو۔ مثلاً … مانا کہ ہم پہ جو روجفا' جو روجفا' جو روجفا… یا تعریف اس خدا کی' خدا کی' خدا کی…اور دلے بفر و ختم، بفرو ختم، بفر و ختم… شاید اسی میں آرٹ ہو۔
ہمارے ادب کو دیکھتے ہوئے بھی بلبل نے اگر اس ملک کا رخ کیا تو نتائج کی ذمہ دار خود ہوگی۔
بھینس
بھینس موٹی اور خوش طبع ہوتی ہے۔
بھینسوں کی قسمیں نہیں ہوتیں۔ وہ سب ایک جیسی ہوتیں ہیں۔ بھینس کا وجود بہت سے انسانوں کے لیے باعث مسرت ہے۔ ایسے انسانوں کی زندگی میں بھینس کے علاوہ مسرتیں بس گئی ہیں گنائی ہوتی ہیں۔
بھنیس کا ہم عصر چوپایہ گائے دنیا بھر میں موجود ہے لیکن بھینس کا خفر صرف ہمیں ہی نصیب ہے۔ تبت میں گائے کے وزن پر سراگائے ملتی ہے۔ سرا بھینس کہیں نہیں ہوتی۔
جغرافیہ دان کہتے ہیں کہ افریقہ میں بھینس سے ملتی جلتی کوئی چیز BIBSONہوتی ہے مگر وہ دودھ نہیں دیتی۔ جغرافیہ دان اتنا نہیں سمجھتے کہ جو چیز دودھ نہ دے بھلا وہ بھینس جیسی کیونکر ہوسکتی ہے۔
یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بھینس اتنی ہی بے وقوف ہے جتنی دکھاء یدتی ہے یا اس سے زیادہ۔ کیا بھینس ایک دوسرے سے محبت کرتی ہیں؟ غالباً نہیں محبت اندھی ہوتی ہے مگر اتنی اندھی نہیں۔
بھینس کے بچے شکل و صورت میں ننھیال اور ددھیال دونوں پر جاتے ہیں۔ لہٰذا فریقین ایک دوسرے پر تنقید نہیں کرسکتے۔
بھینس سے ہماری محبت بہت پرانی ہے۔ بھینس ہمارے بغیر رہ لے لیکن ہم بھینس کے بغیر ایک نہیں رہ سکتے۔ آج کل یہ شکایت عام ہے لوگوں کو کوٹھی ملتی ہے تو ایسی جس میں گیراج تک نہیں ہوتا۔ جہاں بھینس باندھی جاسکے۔
جس گھر میں بھینس ہو (اور بھینس کہاں نہیں ہوتی) وہاں اندرون حویلی سب کے سب بھینس کے چکنے اونٹے ہوئے دودھ کے لمبے لمبے گلاس چڑاتے ہکیں پھر خمار چڑھتا ہے' کائناس اور اس کا کھیل بے معنی معلوم ہونے لگتا ہے اور دنیا کے خواب نظر آتے ہیں۔ رہ گئی یہ دنیا' سو یہ دنیا تو مایا ہے!!
کئی بھینس اتنی بھدی نہیں ہوتیں، مگر کچھ ہوتی ہی ہیں۔ دور سے یہ پتہ چلانا مشکل ہو جاتا ہے کہ بھینس ادھر آرہی ہے یا اس طرح جا رہی ہے۔ رخ روشن کے آگے شم رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں… والا شعر یاد آجاتا ہے۔
بھینس اگر ورزش کرتی اور غذا کا خیال رکھتی تو شاید چھریری ہوسکتی تھی۔ لیکن کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بعض لوگ مکمل احتیاط کرنے پر بھی موٹے ہوتے چلے جاتے ہیں۔
بھینس کا مشغلہ جگالی کرنا ہے یا تالاب میں لیٹے رہنا۔ وہ اکثر نیم باز آنکھوں سے افق کو تکتی رہتی ہے۔ لوگ قیاس آرائیاں کرتے ہیں کہ وہ کیا سوچتی ہے؟ وہ کچھ بھی نہیں سوچتی۔ اگر بھینس سوچ سکتی تو رونا کس بات کا تھا۔
ڈارون کی تھیوری کے مطابق صدیوں سے ہر جانور اسی کوشش میں ہے کہ اپنے آپ کو بہتر بناسکے۔ یہاں تک کہ بندر انسان بن گئے ہیں۔ بھینس نے محض سستی کی وجہ سے اس تگ و دو می حصہ نہیں لیا۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ ارتقائی دور ختم ہوچکا کیونکہ انسان بالکل نہیں سدھر سکا۔ بھینس یہ سب نہ جانتی ہے نہ جاننا چاہتی ہے۔ اگر ماہرین اسے نقوش اور تصویروں کی مدد سے سمجھانا چاہیں تب بھی بے سود ہوگا۔
کبھی کبھی مجھ پر موڈ آتے ہیں جب گائے بکری وغیرہ کو بھینس جسا سمجھنے لگتا ہوں۔
الو
الو بردبار اور دانش مند ہے لیکن پھر بھی الو ہے۔
وہ کھنڈروں میں رہتا ہے لیکن کھنڈر بننے کی وجوہات اور ہوتی ہیں۔ الو کا ذکر پرانے بادشاہوں نے اپنے روزنامچوں میں اکثر کیا ہے لیکن اس سے الو کی پوزیشن بہتر نہیں ہوسکی۔
الو کی بیس بائیس قسمیں بتائی جاتی ہیں۔ میرے خیال میں پانچ چھ قسمیں کافی ہوتیں، ویسے الووں کی عادتیں آپس میں اس قدر ملتی جلتی ہیں کہ ایک الو کو دیکھ لینا تمام الووں کو دیکھ لینے کے مترادف ہے۔
الو کو وہی پسند کرسکتا ہے جو فطرت سے زیادہ مداحخ ہے۔ روز مرہ کے الو کو بوم کہا جاتا ہے، اس کے بڑے کو چغد، چغد سے بڑا الو ابھی تک دریافت نہبں ہوا۔
پالتو الو وہ لوگ رکھتے ہیں جو اس قسم کی چیزوں کو پالنے کے عادی ہوں۔ الو کی شکل و صورت میں اصلاح کی بہت گنجائش ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک الو دوسرے الو کو کیونکر بھاتا ہے۔
دن بھر الو پرام کرتا ے اور رات کو ہو ہو کرتا ہے۔ اس میں کیا مصلحت ہے؟… میرا قیاس اتنا صحیح ہوسکتا ہے کہ آپ کا…! لوگوں کا خیال ہے کہ الو تو ہی تو کا وظیفہ پڑھتا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو وہ ان خود پسندوں سے ہزار درجہ بہتر ہے جو ہرقت میں ہی میں کا ورد کرتے ہیں۔
شوغ اور باتونی پرندوں میں الو کا مرتبہ بہت بلند ہے کیونکہ وہ چپ چاپ رہتا ہے اور غالباً جس مزاح سے مححروم ہے۔ بہت سے لوگ محض اس لیے ذی فہم سمجھے جاتے ہیں کہ وہ کبھی نہیں مسکراتے۔ الو یہ انتظار نہیں کرتے کہ کوئی ان کا تعارف کرائے۔ دیکھتے دیکھتے یوں بے تکلف ہو جاتے ہیں جیسے ایک دورسے کو برسوں سے جانتے ہوں۔ شریک حیات منتخب کرتے وقت الو طبیعت، شکل و صورت اور خاندان کا خیال نہیں رکھتے۔ تبھی وہ صدیوں سے ویسے کے ویسے ہیں۔
مادہ ننھے الووں کی بڑی دیکھ بھال کرتی ہے۔ مگر جونہی وہ ذرا بڑے ہوئے اور ان کی شکل اپنے ابا سے ملنے لگتی ہے انہیں باہر نکال دیتی ہے۔
الو کو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیتے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ جانتا ہے کہ یہ سب بے سود ہے۔
الو دوسرے پرندوں سے مل جول کو اچھا نہیں سمجھتا۔ وہ اپنا وقت اور زیادہ الو بننے میں صرف کرتا ہے۔ ''آپ کا کام سو مہا کام''… الو کا مقول ہے۔
الو کا محبوب مشغلہ رات بھر بھیانک آوازیں نکال کر پبلک کو ڈرانا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ پبلک کیا چاہتی ہے۔ ہمارے ملک کی مثال تو ہم پرستی میں الو نے قابل تقلید حصہ لیا ہے۔ بہت سے لوگ اپنی ناکامیوں کا سبب اس غریب الو کو بتاتے ہیں جو مکان کے پچھواڑے درخت پر رہت ہے۔ الو کی نحوست ہوتی ہے مگر اتنی نہیں۔
الو اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی۔ اچھے تو وہ ہوتے ہیں جو دور جنگلوں میں رہتے ہیں۔ الووں کو برا بھلا کہتے وقت یہ مت بھولیے کہ انہوں نے الوبننے کی التجا تھوڑی ہی کی تھی۔
ماہرین غور کرتے رہتے ہیں کہ الو ہمیشہ تنہا کیوں نکلتا ہے؟ الوووں کا جوڑا باہر کیوں نہیں نکلتا؟ ماہرین کو یہ بھی ڈر ہے کہ الو دن بدن کم ہوتے جا رہے ہیں۔ کہیں نایاب نہ ہو جائیں۔ انہیں فکر نہیں کرنا چاہئے۔ ایسی چیزیں کبھی نہیں مٹتیں، یہ ہمیشہ رہنے کے لیے آئی ہیں۔
ویسے الووں کے بغیر بھی گزارا ہوسکتاہے۔ مگر وہ بات نہیں رہے گی۔ الو آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگے تو اس کی نیت آپ کو پریشان کرنے کی نہیں ہوگی۔ آپ بھی تو اسے گھور رہے ہیں۔ ذرا سی دیر میں وہ زبان ہلائے بغیر آپ کو اپنا ہم خیال بنالے گا… اسے HYPNOTISMکہتے ہیں۔
اس ساری لے دے کے باوجود الو کی زندگی کسی نہ کسی طرح گزر ہی جاتی ہے۔
بلی
بلیاں سلطنت برطانیہ کے مختلف حصوں میں پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ بلیوں پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا۔
بلیوں کی قسمیں بتائی گئی ہیں۔ جو بلیوں کی قسمیں گنتے رہتے ہیں ان کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ بلیاں پالنے والوں کو یہ وہم ہو جاتا ہے کہ بلی انہیں خواہ مخواہ چاہتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ بلی کے قیام و طعام کا بندوبست کرتے ہیں۔ کاش کہ ایسا ہی ہوتا۔
بلیاں دو ہفتے کی عمر میں ناز و انداز کھانا شروع کر دیتی ہیں' بغیر کسی ٹریننگ کے۔ سنا ہے کچھ بلیاں دوسری بلیوں سے خوبصورت ہوتی ہیں۔ بعض لوگ سیامی بلی کو حسین سمجھتے ہیں (ایسے لوگ کسی چیز کو بھی حسین سمجھنے لگیں گے) انگورا کی بلی کی جسامت اور خدوخال کتے سے زیادہ ملتے ہیں۔ ویسے ایراین بلی ایک اچھی آل رائونڈر بلی کہی جاسکتی ہے۔
لیکن ایران میں ایرنی بلیوں پر غیر ملکی بلیوں کو ترجیح دی جاتی ہے… سودیشی بدیشی کا سوال ہر جگہ ہے۔
ویسے ایرانی بلی بھی تماشہ ہے۔ کبھی گربہ مسکین بن جاتی ہے اور کبھی ''نہ بینی کہ چوں گربہ عاجز شود''… شاید ایرانیوں نے اپنی بلی کو نہیں سمجھا… یا شاید سمجھ لیا۔
بلیاں میائوں میائوں کرتی ہیں۔ قنوطی بلی میمی ی آوئوں کہتی ہے تاکہ ہر ایک سن لے۔ جب بلی زیر لب بڑبڑانا شروع کر دے اور تنہائی میں دیر تک بڑبڑاتی رہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کے بہترین دن گزار رہی ہے۔
گرمیوں میں بلیاں پنکھے کے نیچے سے نہیں ہلتیں۔ سردیوں میں بن ٹھن کر ربن بندھوا کر دھوپ سینکتی ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی کا مقصد یہی ہے۔ بلی کا بورواپن نو عمر لڑکے لڑکیوں کے لئے مہلک ہے۔ انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ جو کچھ بلی کے لیے مفید ہے وہ سب کے لیے مفید ہے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ بلیاں اتنی مغرور اور خود غرض کیوں ہوتی ہیں؟ میں پوچھتا ہوں کہ اگر آپ کو محنت کیے بغیر ایسی مغرن غذا ملتی رہے جس میں پروٹین اورو وٹامن ضرورت سے زیادہ ہوں تے آپ کا رویہ کیا ہوگا؟
بی دوسرے کا نکتہ نظر نہیں سمجھتی۔ اگر اسے بتایا جائے کہ ہم دنیا میں دوسروں کی مدد کرنے آئے ہیں تو اسکا پہلا سوال یہ ہوگا کہ دوسرے یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟
تقریباً سال بھر میں بلی سدھائی جاسکتی ہے۔ مگر سال بھر کی مشقت کا نتیجہ صرف ایک سدھائی ہوئی بلی کا ہوگا۔ جہاں بقیہ جو پائے دودھ پلانے والے جانوروں میں سے ہیں وہاں بلی دودھ پینے والے جانوروں سے تعلق رکھتی ہے۔ اگر غلطی سے دودھ کھلا رہ جائے تو آپ کی سدھائی ہوئی بلی پی جائے گی۔ اگر دودھ کو بند کر کے قفل لگا دیا جائے تب بھی پی جائے گی۔ کیونکہ…؟ یہ ایک راز ہے جو بلیوں تک محدود ہے۔
شکی لوگ بلیوں پر اعتبار نہیں کرتے۔ بلیاں کیا کریں؟ ان پر ایسا وقت بھی آتا ہے جب انہیں خود پر اعتبار نہیں رہتا۔
بلی کو بلانے کے لیے پوس پوس پوس' مانو مانو' یا پسی پسی جیسے مہمل اور غیر مہذب کلمات استعمال کیے جاتے ہیں اور بلی پھر بھی نہیں آتی۔ کبھی کوئی بلی خواہ مخواہ ساتھ ہولیتی ہے' جہاں جائو پیچھا کرتی ہے۔ ایسے موقعوں پر سوائے صبر و شکر کے اور کوئی چارہ نہیں۔
بلیاں پیار سے پنجے مارتی ہیں اور کبھی چند وجوہات کی بنا پر جنہیں پبلک نہیں سمجھتی کاٹ لیتی ہیں… شکر ہے کہ بلی کے کاٹے کا علاج آسان ہے۔ اس کا کاٹا پاگل نہیں ہوتا۔
بلیاں آپس میں لڑتی ہیں تو ناخنوں سے ایک دوسرے کا منہ نوچ لیتی ہیں اور مہینوں ایک دوسرے کو برا بھلا کہتی رہتی ہں۔
بلی اور کتے کی رقابت مشہور ہے۔ بلی برداشت نہیں کرسکتی کہ انسان کا کوئف وفادار دوست ہو۔ بلی میں برداشت بہت کم ہوتی ہے۔
کبھی کبھی بلیاں اپنی کمر کو خم دے کرب ہت اونچا کرلیتی ہے اور دیر تک کیے رکھتی ہیں۔ اس کی وجہ تو ویہ جانتی ہوں گی۔ مگر وہ جو کچھ کرتی ہیں اکثر غلط ہوتا ہے… ممکن ہے اس طرح وہ گیئر بدلتی ہوں۔
جب بلی چاند کی طرح دیکھ کر بری طرح رونے لگے تو روئے سخن آپ کی طرف یا میری طرف نہیں۔ یہ سب کسی اور بلی کے لیے ہے۔
اندھیرے میں کالی بلی کا نظر آجانا خوش قسمتی سمجھا جاتا ہے… پتہ نہیں بدقسمتی کیا ہوتی ہوگی؟
خیر جو کچھ بھی ہو' ہم سب کی تقدیر میں بلی لکھی ہے۔ اپنی بلی سے بچنا محال ہے۔ کوئی دلیر ہو یا بزدل' عقل مند ہو یا احمق' کسی نہ کسی دن ایک بلی اسے آلے گی… ویسے ایرانیوں کا اصول رہا ہے کہ گربہ کشتن روز اول۔
میں گھنٹوں سوچتا رہات ہوں کہ میں بلیوں سے دور رہتا تو بہتر ہوتا۔
https://www.facebook.com/UnitedPeopleOfPakistan
No comments:
Post a Comment