نیو یارک پہنچا تو احساس ہوا کہ یہ بت بڑے ملک کا بہت بڑا شہر ہے جس میں چھوٹے ملک کے چھوٹے لوگ آکر اپنے پپ کو بہت ہی چھوٹا محسوس کرتے ہیں۔ میں نے وہاں اپنا قد کاٹھ بقرار رکھنے کی کوشش کی لیکن فلک بوس اور دیو ہیکل عمارتوں میں بونا بن کر رہ گیا۔ میں نے چند گھنٹوں میں ہی بھانپ لیا کہ یہاں بڑی بڑی کاریں ہیں، کاروں سے بڑی دکانیں ہیں، دکانوں سے بڑی عماریں ہیں۔ البتہ یہاں دو چیزیں غائب ہیں، ایک زمین اور دوسرا آسمان۔ میں مین ہٹن (Manhatta) میں کھڑا نیچے دیکھتا تو ساری زمین گاڑیوں سے اٹی ہوئی ہوتی اور نگاہ اوپر اٹھاتا تو فلک بوس عمارتیں راستہ روک لیتیں۔ میں نے دو ایک راہگیروں سے پوچھا:
''میرے زمین و آسمان کہاں ملیں گے''
''یہاں سے چالیس میل دور''
''کیوں؟ وہ یہاں میری پذیرائی کو نہیں آسکتے؟''
''نہیں وہ سوبرب (Suburbs) میں رہتے ہیں اور شہر میں صرف چھٹی کے دن نظر آتے ہیں۔''
میں نے خود سوبرب جا کر ان سے ملنے کا ارادہ کسی اور دن پر اٹھا رکھا اور بلا تاخیر فتوحات نیو یارک کا ارادہ کیا کیونکہ وقت بہت کم تھا اور میدان کار زار بہت وسیع۔ میں نے نیو یارک کی رگوں کو گد گدانے اور اس کی نسوں کو ٹٹولنے کی بہت کوشش کی' لیکن یہ ٹس سے مس نہ ہوا، یہ کوئی زک احساسات والی حسینہ تھی جس کی ہتھیلی کو مصافحہ کے بہانے گدگدایا جائے تو چہرے پر شفق بھر جائے۔ یہ تو ایک بڈھا ہاتھی تھا جس کے اعضائے رئیسہ تلاش کرنے کے لیے بھی کولمبس کا جذبہ تجسسّ اور ریٹائرڈ گورنمنٹ سرونٹ کی فراغت درکار تھی' سچی بات یہ ہے کہ میرا دامن ان دونوں ہتھیاروں سے خالی تھا لہذا میرے ہاتھ میں ہاتھی کا جو حوصلہ آیا میں اسے ہاتھی سمجھ بیٹھا۔ اگر آپ بھی نیو یارک دیدہ ہوں اور آپ کا ہاتھی میرے ہاتھی سے مختلف نکلے تو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ دونوں ہاتھی اصلی ہوں۔
بازار میں چلتے چلتے رفیق نے کہا:
''اگر سفر نامہ لکھنے کا ارادہ ہے تو ضروری کتابچے فلاں دکان سے مل سکتے ہیں' اگر امریکہ پر اپنے علم و فضل کا رعب ڈالنا ہے تو عجائب گھروں، تاریخی عمارتوں اور آرٹ گیلریوں کے جملہ کوائف فلاں جگہ سے دستیاب ہوسکتے ہیں اور اگر بیان میں رنگ بھرنے کا ارادہ ہے تو چمچہ ہلائے بغیر شیر وشکر ہونے والی میمیں فلاں مقام پر فراہم ہوسکتی ہیں۔''
میں نے کہا۔ ''میں کسی بھیب گناہ کبیرہ یا گناہ صغیرہ کے لیے منصوبہ بندی کا قائل نہیں' میں تو دید برائے دید کے فلسفے پر کاربند ہوں، راستے میں جو کچھ ہاتھ آیا زمیل میں ڈالتے جائیں گے۔ چلو چلیں۔''
آوارہ گردی کے ابھی چند ہی گھنٹے گزرے تھے کہ نیو یارک کی قوت برداشت جواب دینے لگی اور اس نے غروب آفتاب کے بہانے تاریکی میں منہ چھپانا شروع کر دیا۔ میں فٹ پاتھ پر کھڑا اپنے چند گھنٹوں کے تاثرات سمیٹنے لگا' میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ شہر بے حد مصروف ہے' اسے نہ دیکھنے کا ہوش ہے کہ ''کون آیا ہے'' اور نہ یہ پوچھنے کی فرصت کہ بھئی کیسے ہو'٫ کہاں ٹھہرے ہو' کوئی چائے پانی' کوئی لسی کا گلاس یا بوتل وغیرہ۔'' کچھ بھی نہیں۔ دوسرا تاثر یہ تھا کہ یہاں رفتار زندگی بہت تیز ہے۔ ہاں رفتار پر پابندی ضرور ہے لیکعن صرف گاڑیوں کی حد تک' زندگی کی تیز گام بریکوں کے بغیر چلتی ہے اور بہت تیز چلتی ہے۔
میں تیز رفتاری کے متعلق سوچتے سوچتے خود چکرانے لگا، میں اپنے آپ کو لٹو کے کیل کی طرح محسوس کرنے لگا جو خود ایک نقطے پر کھڑا رہتا ہے لیکن اس کے گرد ہرش ے گردش کرتی رہتی ہے۔ رفیق نے بتایا' اسی مومینٹم (Momentum) کا نام نیو یارک ہے یہ مومینٹم ٹوٹ گیا تو لٹو گر پڑے گا۔
میں واپس کمرے میں چلا گیا۔
کمرے کا ٹیلی ویژن سیٹ کھولا تو وہاں فلم چل رہی تھی (جو درحقیقت فلم کا ٹریلر تھا) اس میں ایک خوش شکل مگر بدکردار شخص جنسی ہوس کی تسکین کے منصوبے بناتا ہے اور س فلیٹ کے دروازے پر پہنچ جاتا ہے جس کے اندر ایک حسینہ باتھ ٹب میں اکیلی تیر رہی ہوتی ہے۔ جذبات اور صابن کی جھاگ حسینہ کا جسم چھپ چھپ جاتا ہے۔ لیکن اس کے برہنہ شانوں اور چہرے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پھول کی پتیاں بکھرنے کو تیار ہیں' خوش شکل مرد اس کے دروازے (فلیٹ) پر دستک دیتا ہے، دروازہ کھلتا ہے اور وہ اندر داخل ہوجاتا ہے، اس کی حرکتوں کا نوٹس لینے اور پولیس کو اطلاع دینے کی غرض سے میری نگاہیں بھی اس کے تعاقب میں کمرے کے اندر چلی جاتی ہیں لیکن دروازہ دوبارہ بند ہو جاتا ہے اور اعلان ہوتا ہے کہ یہ فلم آج رات 11بجے ہوٹل کے کلوز سرکٹ ٹی وی پر دکھائی جائے گی، جو مہمان دلچسپی رکھتے ہوں ہوٹل کے فلاں نمبر رپ رابطہ قائم کریں، میں نے سوچا کہ ا مریکہ آکر بھی بلیو فلم پر گزارہ کرنا تو حیف ہے… امریکہ پر بھی اور مجھ پر بھی!
میں نے لیٹنے سے پہلے مینو کارڈ اٹھایا جس پر ہوٹل ہولوں کی یہ دائمی خواہش درج تھی کہ براہ کرم سونے سے پہلے ناشتے کا آرڈر دیجئے تاکہ کل صبح بروقت سروس کی جاسکے' میں نے مینو کارڈ پڑھا اور اسے خاصا گنجلک پایا' اسے سمجھنا جدید شاعری کو سمجھنے سے کم نہ تھا۔ میں نے تمام مندرجات کو پڑھنے اورس مجھنے کی بجائے اپنے معمول کے مطابق چائے، ٹوسٹ اور انڈے کا آرڈر دے دیا اور تاکید کردی کہ چائے معہ دودھ پیش کی جائے۔ عیاشی کے طور پر ایک فریش جوس کا آرڈر بھی لکھ دیا تاکہ وہ میری سادگی کو میری مفلسی پر محمول نہ کریں۔ یہ اہتمام کرنے کے بعد میں بستر میں گھس کر ابن انشاء کی خواب آور نظمیں پڑھنے لگاذ میں یہ مصرعہ گنگنا رہا تھا ''دروازہ کھلا رکھنا… دروازہ کھلا رکھنا۔'' کہ میرے نیم وا دروازے پر ایک نسوانی دستک ہوئی۔ گھڑی دیکھی تو گیارہ بج چکے تھے۔
بلیو فلم کا ٹریلر دیکھنے کی وجہ سے میرے دل میں دل میں طرح طرح کے نفسانی خیالات آنے لگے مثلاً یہ خاتون رات گئے میرے در پر کیا مراد لے کر آئی ہے، اگر میں نے اسے نامراد لوٹا دیا تو یہ کیا کہے گی اور اگر اسے بامراد لوٹانے کی کوشش کی تو دنیا کیا کہے گی۔ مجھے ویسے بھی اپنی عصمت سے زیادہ اپنی شہرت کا خیال رہتا ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالی کے آگے ناک منہ رگڑ کر گناہ تو رائٹ آف کرائے جاسکتے ہیں لیکن پبلک کے سامنے ناک منہ رگڑ کر چکنا چور شہرت کو دوبارہ نہیں جوڑا جاسکتا۔
میرے ان نیک و بد خیالات کے دوران و تین مرتبہ نسوانی دستک دہرائی گئی' جس کی کے جواب میں ہربار میں نے افسرانہ رعب کے ساتھ، کم ان (come in) ہانک لگائی لیکن شاید وہ بہت شرمیلی تھی اس نے دہلیز کے اندر قدم نہ رکھا' چار و ناچار میں بستر سے نکل کر دروازے پر گیا تو وہاں سچ مچ کھڑی تھی' وہ میرے جذبات معلوم کرنے سے زیادہ اپنے خیالات سنانے کے لیے بیقرار تھی، اس نے پریپ کلاس کی کہنے مشق استانی کی طرح مجھے سمجھاتے ہوئے کہا ''یہ نیو یارک ہے یہاں آدھی رات کو دروازہ کھلا رکھنا خطرناک ہے' میں ہوٹل کی ملازمہ ہوں اور رات کو اس فلور کے تمام دروازے چیک کرنا میرا فرض ہے۔ دروازہ بند کر لیجئے، پہلے چٹخنی چڑھائیے پر پیتل کی زنجیر باندھئیے اور دروازہ کھولنے سے پہلے شیشے کے اس ننھے سے سوراخ سے جھانک کر باہر دیکھئے کہ دستک دینے والا کون ہے… پھر دروازہ ہکھوئیے… اوکے' تھینک یو' سویٹ سلیپ' لیکچر ختم ہوا اور وہ یہ جا' وہ جا' اور میں… ایں جاوایں جا!
خاتون کا وعظ سن کر مجھے اپن اگائوں یاد آگیا جس کی چھت پر میں ساری گرمیاں لمبی تانے… اور کئی مرتبہ کچھ تانے بغیر… پہروں بے فکر سویا کرتا تھا۔ دیہاتی مکانوں کی چھتوں کی منڈیر نہ ہونے کے برابر تھی، جی کی وجہ سے ہور کوئی دوسرے کے ازدواجی حالات سے باخبر رہ سکتا تھا اور یہاں دیکھئے ہوٹل کی انیسویں منزل پر کمرے کے اندر بھی پابندیاں! پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ امریکہ آزاد ملک ہے۔
میں رات بھر پاکستان میں پھرتا رہا' کبھی گائوں میں اور کبھی شہر میں' کبھی قصائی کی دکان پر الٹا لٹکا ہوا بکرا میری آنکھوں کے سامنے رہا اور کہیں سر راہ جوتے مرمت کرنے والا موچی میری نگاہوں میں سمایا رہا' کہیں بچوں کے جھولے دکھاء یدیتے رہے اور کہیں سرسوں سے سجے کھیت' صبح اٹھا تو میرا سارا پاکستان مجھ سے چھین لیا گیا۔
صبح صبح کمرے میں عجیب قسم کی منحوس خاموشی تھی نہ بیوی کی بڑبڑاہٹ نہ بچوں کی چچاہٹ' میرے لیے خاموشی کا یہ بوجھ برداشت کرنا مشکل ہوگیا۔ میں نے ریموٹ کنٹرول کا بٹن دبایا اور ٹی وی چالو ہوگیا' ٹی وی کیا چالو ہوا' پانچ چھ حسینائیں چالو ہوگئیں' وہ اپنی قدرسی جلد پر ایک مصنوعی جلد (Skin tight) چڑھائے ورزش کے بہانے بڑی اشتعال انگیز حرکتیں کر رہی تھیں اور باقی اپنی عقل کو استعمال میں لائے بغیر گنوار عورتوں کی طرح اس کے اشارے پر شہوت انگیز پوز بنا رہی تھیں، انہیں ذرا احساس نہ تھا کہ ایک نا محرم مرد … اپنے بیوی بچوں سے دور … انہیں نہار منہ تاڑ رہا ہے۔ میں ان کی ورزشوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہلیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے اکثر ہم وطنوں کی طرح انہیں کوس بھی رہا تھا کہ صبح ہو یا شام جب بھی ٹی وی کھولو بس عورت اور جنس، اور عورت اس کے علاوہ بھی امریکہ کے پاس دکھانے کو کچھ ہے؟ اللہ تعالی نے انہیں سائنس دی ہے، انہیں ٹیکنالوجی دی ہے' انہیں رزق کی کشادگی دی ہے تو یہ کیوں نہیں اللہ کا شکر ادا کرتے' یہ ٹی وی پر اذانیں کیوں نہیں دلواتے' قرات کیوں نہیں کراتے' نعتیں کیوں نہیں پڑھواتے۔
میرے ذہن میں یہ نیک خیالات آتے ہی یہ فحش پروگرام ختم ہوگیا' انائونسر نے بتایا کہ یہ حاملہ عورتوں کے لئے ورزش کا پروگرام تھا، انسٹرکٹر تھیں مس کیتھرائن! مجھے اس اعلان مںی بھی کچھ کالا نظر آیا کیونکہ ہمارے ہاں حاملہ عورتوں کی پہچان اس کا پھولا ہوا پیٹ اور جھائیوں بھرا چہرہ ہوتا ہے، اور یہ پانچوں عورتیں اس شرعی پہچان سے یکسر محروم تھیں ان سے بڑا پیٹ تو ہمارے ہاں خالی پیٹ عورتوں کا ہوتا ہے' یہ سراسر فراڈ تھا' میرے خیال میں فحاشی کی تہمت سے بچنے کے لیے اسے ورزشی پروگرام کا نام دے دیا گیا تھا۔
اتنے میں دروازے پر گھنٹی بجی اور ایک شخص ٹرالی پر دکان سجائے داخل ہوا۔ جک کر دو متربہ کورنش بجالایا اور بل پر دستخط کروا کر چلا گیا۔ میں ریشمی سی سستی کی گود سے اٹھ کر ٹرالی کے پاس گیا تو سرفہرست دودھ کے دو جگ کھڑے تھے… ایک ٹھنڈا اور دوسرا گرم' ایک ٹوکری بیکری کی مصنوعات کی' ایک انڈا' جیم اور شہد کی تبرکات سمیت مگر چائیا ور جوس غائب۔ عینک لگا کر اپنے ابتدائی معائنے کی تصدیق چاہی اور اسے صحیح پایا۔ ہوٹل والوں کی ناسمجھی پر خاصاغصہ آیا۔ غصہ کی وجہ یہ تھی کہ بھئی بے شک تم نے ہم سے پہلے انگریزوں سے آزادی حاصل کی تھی لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اپنا آموختہ اتنی جلدی بھوء جائو اور میری سادہ سی انگریزی بھی نہ سمجھ پائو۔ آخر ہمیں دیکھو تیس سالوں میں ہم نے انگریزی کا معیار ہر گز گرنے نہیں دیا۔
میں نے روم سروس کو فوراً فون کیا اور کہا کہ فوراً… پیدل یا سوار مگر جلد از جلد… ایک ایسا سراغ رساں بھیجا جائے جو جوس اور چائے کھوج لگا سکے۔ فٹافٹ ایک سفید فام جن انسانی روپ میں میرے سامنے نمودار ہوا اور ''یس سر' یس سر'' کہتا ہوا تعمیل ارشاد کے لیے کھڑا ہوگیا۔ میں نے فوراً اسے مشن سونپ دیا اور اس نے فوراً ٹرالی کا کپڑا اٹھا کر اس کی نچلی منزل سے دونوں گم شدہ اشیاء برآمد کرلیں' میں نے ان کی جائے روپوشی کا معائنہ کیا تو وہاں دو الگ الگ خانے تھے ایک کے اوپر لکھا تھا ''کولڈ'' اور دوسرے کو اوپر درج تھا ''ہاٹ'' ایک ٹھنڈا جوس تھا اور دوسرے میں گرم چائے۔
یہ عقدہ حل ہوگیا تو میں نے دو جل دودھ کی طرف اس کی توجہ مبذول کرائی اور بتایا کہ کیوں جگ ہنسائی کراتے ہو' میں تو ایک آدھ دن کا مسافر ہوں' مجھے یہاں کھیر پکوا کر کوئی ختم دلوانا ہے' یہ دودھ کے جگ کیا معنی' اس نے پھرتی سے اپنی بائیں جبجیب سے رات والا مینو کارڈ نکالا اور انگلی کے اشارے سے بتایا کہ ''گرم مشروبات'' اور ''سرد مشروبات'' دونوں کے نیچے دودھ کے خانے کو ٹک کیا گیا تھا۔ میں نے کہا میں نے صرف تاکیداً ایسا کیا تھا' میری ہر گز مراد یہ نہ تھی کہ دو جگ دودھ الگ الگ لے آئو' خیر کوئی بات نہیں' جائو آرام کرو۔
ناشتہ کر کے میں ایک بار پھر نیو یارک کی سڑکوں پرنکل آیا… شتر بے مہار کی طرح نہ پروگرام نہ منزل' صرف دید برائے دید کا جذبہ لیے گھومتا رہا' پھرتا رہا' پھر تھک کر ایک سایہ دیوار کے نیچے رک گیا' وہاں گین کی ایک گھڑی میں مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ یہاں سکڑوں کو سٹریٹ کہتے ہیں اور ان سب کے نام ناموں کے بجائے ہندسوں پر ہیں۔ مثلاً سٹریٹ نمبر 35، سٹریٹ نمبر 36 وغیرہ جس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ امریکہ کے پاس قومی ہیرو بہت کم ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہندسوں پر گزارہ ہے یہاں کوئی رومی روڈ ہے نہ شامی روڈ، نہ سر سید روڈ نہ علامہ اقبال روڈ نہ جناح روڈ نہ مولوی فضل الحق روڈ۔ میں نے ان پر ترس کھا کر یہ ارادہ کرلیا کہ اگر امریکہ والوں نے ہمارے ساتھ تعلقات خوشگوار رکھے تو ہم انہیں دو چار مشاہیر عنایت کردیں گے۔
مجھے بعد میں پتہ چلا کہ یہاں صرف گلیوں اور سڑکوں پر ہی ہندسوں کی اجارہ داری نہیں، بلکہ سارے گلشن کا کاروبار ہی ہندسوں پر چلتا ہے' بینک بیلنس ہندسوں میں' دفاعی قوت ہندسوں میں' انسانی جسم کی شناخت ہندسوں میں Vital Statisticsیہاں تک کہ لوگ میگنیٹک گھڑیوں کے ہندسے دیکھ کر سوتے اور جاگتے ہیں ہمارے یہاں جو رومانس نسیم صبح، روپہلی دوپہر، سرمئی شام اور بھیگی رات میں ہے امریکہ اس سے محروم ہے۔
اس گردش بے مراد کے دوران میں ایک بڑے سٹور میں گھس گیا' جہاں ہزاروں کے حساب سے سلے سلائے کپڑے ٹنگے ہوئے تھے، لیکن سب بچوں کے لیے… نیلے نیلے… اودے اودے' کالے کالے' دھاری والے! میں بڑا خوش ہوا کہ یہاں بچوں کا بہت خیال رکھا جاتا ہے، لیکن اچانک خیال آیا کہ ڑوں کے کپڑے کہیں نظر نہیں پتے کہیں انہیں کھلی چھٹی تو نہیں کہ اب تم جوان ہوگئے ہو' جس قوم کے چاہو کپڑے اتار لو؟ میں نے سرگوشی میں رفیق سے یہ معمہ حل کرنے کو کہا' اس نے شہادت کی انگلی سمیت اپنا منہ بھی آسمان کی طرف اٹھادیا، میں سمجھا اس کا مطلب ہے ''ان کا اللہ مالک ہے'' لیکن جب وہ میرا بازو پکڑ کر ایس کیلیٹر کے ذریعے اوپر لے گیا تو پتہ چلا کہ اس کی مراد اوپر والی منزل سے تھی جہاں واقعی بڑوں اور صرف بڑوں کے کپڑے تھے۔ میں نے سوچا شاید اس سے اوپر والی منزل بوڑھوں کے لیے ہوگی اور اس سے بھی اوپر والی؟؟ رفیق نے بتایا کہ یہاں ایک فلور پر ایک ہی جنس بکتی ہے۔ امریکہ کی دکانداری کا یہی انداز ہے۔
میں جب بھی تنہا ہوتا ہوں مجھے خواتین کی بہبود کا بہت خیال رہتا ہے' یہاں بھی نے سوچا کہ خواتین خانہ کو خاصی دقت پیش آتی ہوگی کیونکہ باورچی خانے کی اشیائے ضرورت خریدتے وقت اگردھنیا ایک منزل پر ملتا ہوگا تو پودینہ دوسری پر، الائچی تیسری منزل پر تو گرم مصالحہ چوتھی پر۔
منزل بہ منزل سٹور سے باہر نکلا تو سطح زمین پر واقع ایک دکان ملی جس کے شوکیس میں بہت سے شوز (Shoes) سجے ہوئے تھے، سوچا صنعتی ترقی کے زور پر تھوگ کے بھائو بنائے گئے یہ جوتے بہت سستے ہوں گے، بیس پچیس جوڑے لیے چلتے ہیں' بدل بدل کر پہنا کریں گے اور احباب پر رعب ڈالیں گے کہ امریکہ سے لایا ہوں' پرانے ہوگئے تو کسی رشتہ دار کو دے دوں گا جو فخر سے کہتا پھرے گا کزن امریکہ سے لایا تھا اور اگر پھر بھی نہ ٹوٹے تو اپنے ملازموں کو عطا کردوں گا' لنڈے سے خریدے ہوئے امریکہ کپڑے پہلے ہی ان کے پاس ہیں' امریکی جوتے پہن کر وہ پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں گے۔
ان عزائم کے ساتھ میں نے فٹ پاتھ پر کھڑے کھڑے دکان کے بیرونی شیشے سے ماتھا جوڑ کر دکان کے اندر جھانکا، جتنے جونوں کی قیمت وہاں سے پڑھ سکا ڈیڑھ سو ڈالر سے تین سو ڈالر کے درمیان نکلی (دکان سمیت نہیں، صرف ایک جوڑا جوتے کی قیمت) میں نے فوراً دس سے ضرب دی اور حاصل جواب نکلا ڈیڑھ ہزار روپے سے تین ہزار پاکستانی روپے۔ توبہ توبہ یہ ذرا بھی ''خوف خدا'' سے نہیں ڈرتے۔ میں نے جوتوں کی امریکی صنعت کی سرپرستی کرنے کا ارادہ ترک کر دیا اور مجھے اپنا گائوں والا موچی یاد آنے لگا جو فصل ربیع کے موقع پرایک بوری اور فصل حریف کے موقع پر ڈیڑھ بوری غلے کے عوض سارے ٹبر کے لیے سارا سال جوتے مہیا کرتا تھا۔ اب تو وہ گرگابیاں بھی بنانے لگا تھا۔ بڑا ہونہار اور محنتی تھا۔ مجھے بابائے قوم حضرت قائم اعظم کا قول بھی یاد آگیا کہ اپنی مملکت کو ترقی دینے کے لیے اپنی قومی مصنوعات کی سرپرستی کرنی چاہئیے۔
میں نے اپنی آوارگی کو ہوٹلوں کے جائزے کے بغیر نامکمل سمجھا' چنانچہ جذبہ تحقیق یا جذبہ تفتیش مجھے کئی ہوٹلوں میں لے گیا۔ سچ پوچھے تو نیو یار کے ہوٹل بہت ناکارہ نکلے' ان میں سے کوئی بھی میرے معیار پر پورا نہ اترا' وہاں نہ پلائو تھا نہ مرغی' نہ بالٹی گوشت نہ روغنی نان' نہ دہی کونڈے' نہ لسی اور نہ لسی والے پہلوان حتیٰ کہ توے کا پھلکا اور تنور کی مرکنی روٹی بھی غائب تھی' پتہ نہیں امریکہ والے ان نعمتوں کے بغیر صرف سائنس اور ٹیکنالوجی پر کیسے گزر اوقات کرتے ہیں' ہمیں تو دو دن متواتر ٹوسٹ پر گزارہ کرنا پڑے تو ہڑتال نہ کردیں تو پاکستانی نہ کہنا… لیکن یہاں روٹی کے آثار نظر نہ آئے، نہ ہڑتال کے۔ عجبی بے حس لوگ ہیں!
میں نے دو ایک جگہ سے پتہ کیا کہ کہیں شریفانہ کھانا مل سکتاہے۔
جواب ملا ''جی ہاں' بریڈ فور اور بمنگھم میں ٹرائی کیجئے۔''
میں نے کہا کہ وہ تو ذرا پیچھے رہ گئے ہیں۔ بحر اوقیانوس کے اس پار' ادر کا کوئی پتہ بتائیے۔''
انہوں نے کسی غیر معروف جگہ کا نام لیا جس سے مجھے شک ہوا کہ وہ میری آمد کے طفیل اس جگہ کو معروف بنانا چاہتے ہیں' میں اس و قت اس قسم کی فیاضی کیموڈ میں نہیں تھا اس لیے وہاں جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔
رزق کی تلاش میں فٹ پاتھ ناپ رہا تھا کہ اس موڈرن شہر کے ایک موڈرن حصے میں تیز مسالوں کی تیز خوشبو نے میرا دامن پکڑ لیا' یوں لگا جیسے میں راولپنڈی کے ہاتھی چوک' لاہور کے بھاٹی گیٹ یا کراچی کے جیکب لائنز میں پہنچ گیا ہوں' میں نے وہیں کھڑڑے کھڑے ناک کو دو تین مرتبہ سکیڑ ساری مہک جذب کرلی۔ کبھی ہم چار یاری میں مال روڈ پرکھڑے ہو کر گزرتی حسینائوں کی مہک سے اسی طرح لطف اندوز ہوا کرتے تھے' لیکن آج پیٹ کی بھوک ہر بھوک پر غالب تھی۔ چنانچہ مہک کے تعاقب میں ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں داخل ہوگیا۔ یہ ایک یونانی طعام گاہ تھی۔
یونانیوں نے یورپ' ایشیا اور افریقہ کے سنگھم پر واقع ہونے کی وجہ سے تینوں بر اعظموں کے ذوق خوراک سے استفادہ کیا ہے' چنانچہ ان کے کھانے لذیذ بھی ہوتے ہیں اور زود ہضم بھی' کھانے سے پہلے اشتہا کو تیز کرتے ہیں اور کھانے کے بعد طمانیت کا احساس دلاتے ہیں' لہذا میں نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا اور جوتوں کی خرید (یا عدم خرید) سے جو پیسے بچائے تھے یونانیوں کے حووالے کر دئیے۔ در اصل میں یونانیوں کا پرانا مداح ہوں' ہوا یوں کہ جب پہلی مرتبہ میں نے سکول میں سکندر اعظم کا حال پڑھا تھا تو اسے ایک مسلمان سپہ سالار سمجھ کر اس کی بہت تعظیم کرنے لگا' بعد ازاں جب وہ غیر مسلم نکلا تو میں نے اسے نامور جرنیلوں کی فہرست نکال دیا۔ کاش وہ مسلمان ہوتا۔
بل ادا کرتے وقت مجھے احساس تھا کہ بین الاقوامی تعلقات میں یونان اور ترکی کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے اور اس کھینچا تانی میں ہمارا وزن ترکی کی طرف ہے' اس لیے ممکن ہے یونانیوں کے زر مبادلہ اضافہ کرنے پر ترکی مجھ سے ناراض ہو جائے لیکن میرا خیال تھا کہ ترکی برا نہیں مانے گا کیونکہ یونان ایک پٹا ہوا پتا ہے، ماضیکا ایک کھنڈر ہے جبکہ ترکی آج بھی عظمت کی نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے' وہاں تازہ تازہ مارشل لاء لگا ہے' انہیں کس چیز کی کمی ہے۔ ویسے بھی گری ہوئی عظمتیں اور ریٹائرڈ شدہ افسران خواہ مخواہ میری ہمدردیوں کے مرکز بن جاتے ہیں۔
میں کھانا کھا کر کمرے میں چلا آیا اور ٹی وی یا ٹی وی والوں سے کسی قسم کی شرارت کیے بغیر بستر میں گھس گیا' کل کے تجربے کی روشنی میں آج رات کل صبح کے ناشتے کے لیے مینو کارڈ بھی نہ بھرا' بس ایک کتاب لی' اس کے چند صفحے پڑھے اور دن بھر کی تھکاوٹ نے تھپکی دے کر نیند کے حوالے کر دیا۔
صبح اٹھ کر عوام الناس کے ساتھ ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں ناشتہ کرنے کا ارادہ کیا۔ پرانے کپڑوں پر نیو یارک سے خریدی ہوئی تازہ پرفیوم چھڑکی اور ہر آے والے حسین حادثے کے لیے مسلح ہو کر نیچے چلا آیا' ڈائننگ ہال فل تھا' میری طرح کئی لوگ ناشتے کے انتظار میں ہال سے متحرک اور غیر متحرک قیمتی چیزوں کو دیکھ کر وقت ٹہلا رہے تھے، میں نے بھی کچھ وقت اسی مشغلے میں گزارا او وقفے سے وقفے سے ہال میں جھانکتا رہا' ایک مرتبہ اندر سے ایک ویٹر نے جھانک لیا اور میرے لباس سے مجھے پہچان لیا۔ اس نے کہا ''بادشاہو' تسی کیوں باہر کھڑے ہو' اندر آجائو' تہاڈے لئی جگہ بنانا میرا کام اے۔''
دیار غیر میں اس اپنائیت سے میں بہت متاثر ہوا، اس نے کونے میں چھوٹی سی میز پر میرے لیے ناشتہ چن دیا اور مجھ سے ڈاک خانہ کا کوئی رول نہ تھا) وہ سفید کالر پر کالی بو اور کالے رنگ پر سفید کوٹ پہن کر فرفر انگریزی' فرانسیسی اور پنجابی بولتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا:
''کیسی گز رہا ہے''
''ایک دم فسٹ کلاس''
''پھر بھی' کچھ بتائو تو کیسے فرسٹ کلاس''
''ڈیٹیل'' (Details) کا ٹائم نہیں ہے کیونکہ اس وقت ناشتے کا ٹائم ہے۔ بس یہ سمجھ لو ہر طرح فسٹ کلاس' ادھر پیسہ بہت ہے' لڑکی بہت ہے' عیاشی بہت ہے… اب تو سنا ہے ادھر لوگوں نے شراب بھی بند کر دی ہے۔''
میں نے تسلی آمیز لہجے میں اسے بتایا ''فکر نہ کرو صرف شراب ہی بند کی ہے''
آج میرے پروگرام میں سوبرب Suburbsجا کر زمین آسمان دیکھنا تھا۔ اس کام کو انجام دینے کی ذمہ داری ایک ہم وطن نے اپنے ذمے لی تھی، لہذا میں ہوٹل سے باہر نکلا تو میزبان چار گز لمبی شیورلے گاڑی سمیت تیار کھڑا تھا۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگا۔
''آپ نے نیو یارک کا جلوس دیکھا؟''
''نہیں' دکھا دو' یاد کریں گے''
''وہ دیکھو سڑک کے اس پار' کونے پر''
میں نے وہاں دیکھا مگر کچھ نظر نہ آیا' عینک کا شیشہ صاف کر کے دوبارہ دیکھا مگر پھر بھی مثبت نتائج نظر نہ آئے، اس نے مجھے اپنے ساتھ کھڑا کر کے چاند دکھانے کے انداز میں کہا۔
''وہ دیکھو' دو سڑکوں کا جوڑ' بڑے سے بورڈ کے نیچے''
''ہاں ہاں… مگر وہ تو گنتی کے کل پانچ آدمی ہیں' ان کے ہاتھ میں ایک بینر اور تین پلے کارڈ ہیں۔''
''ہاں' وہی' وہی''
''کیا وہ گونگے ہیں یا یہاں آزادی تقریر پر پابندی ہے۔''
''نہیں یہ ایک آزاد ملک ہے وہ بول سکتے ہیں' نعرے لگاسکتے ہیں' آپ کے آنے سے پہلے انہوں نے ایک نعرہ لگایا تھا' میرے سامنے''۔
''مگر ٹریفک تو اسی طرح جا رہی ہے۔ فٹ پاتھ پر آدمی بھی حسب معمول چل رہے ہیں…
''ہاں' یہاں جلوس کا یہی انداز ہوتا ہے''
''مگر صرف پانچ آدمیوں کا جلوس' اتنے چھوٹے جلوس پر تو پابندی لگا دینی چاہئے اتنے بڑے شہر میں اتنے چھوٹے جلوس سے شہر کی سیکی ہوتی ہے' ملک کا امیج بگڑتا ہے۔ اس سے زیادہ لوگ تو جبوتی میں مل سکتے ہیں' ہمارا اپنا ملک اس ضمن میں خاصا سینئر ہے' جہاں لاکھوں آدمیوں پر مشتمل میلوں لمبا جلوس پہروں چلتا رہتا ہے' میرا خیال ہے اگر اس دورے میں مجھے امریکہ کا کوئی ذمہ دار فرد ہاتھ آگیا تو میں اسے پیش کش کروں گا کہ جلوس نکلوانے کا ٹھیکہ ہمیں دے دو' رعایتی نرخوں خدمت انجام دیں گے اور دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے۔''
میرے میزبان نے میری پیش کش سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ تک پہچانے کی ذمہ داری قبول کر کے مجھے خاموش کرادیا' اور آج کے ہتک آمیز جلوس کی توجیح یہ پیش کی کہ یہاں لوگ اپنے کام میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ پانچ آدمی اکٹھے کرنا بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس لنگڑی دلیل سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہاں لوگ ذاتی کاموں کو قومی مفاد پر ترجیح دیتے ہیں جو امریکہ کے مستقبل کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔
میں نے اس چھوٹے سے جلوس پر سایہ فگن عظیم عمارتوں کی طرف دیکھتے ہوئے میزبان سے پوچھا:
''آپ کہاں رہتے ہیں''
''یہیں میں ہٹن میں… وہ دیکھو دائیں جانب ایک سو دس منزلہ عمارت' اس کے ساتھ ٩٧ منزلہ بلڈنگ' ان دونوں کے درمیان اس ٨٤ منزلہ عمارت کی ٥٦وین منزل پر رہتا ہوں' ادھر سے دیکھو تو دائیں ہاتھ سے ٣٨ویں کھڑکی میرے فلیٹ کی ہے جو یہاں سے صاف نظر آرہی ہے… خیر کوئی بات نہیں' سوبرب جانے سے پہلے آپ کی بھابی کو لینا ہے' وہ تیار ہو رہی تھی میں نے کہا اتنے میں آپ کو پک اپ کرلوں''۔
سچ پوچھئے تو میزبان نے جس غرفے یا ڈربے کی نشاندہی کی وہاں جانے سے مجھے خوف آنے لگا' اس سے تو بہتر تھا کہ مجھے شکم ماہی میں بھیج دیا جاتا تاکہ حضرت یونس علیہ السلام کی طرح صابر کہلاتا' اس عمارت میں بقائمی ہوش و حواس قید ہونا قید حیات کو دو آتشہ بنانے سے کم نہ تھا مجھے طرح طرح کے خیالات آنے لگے۔ اگر لفٹ کام نہ کرے تو یہ کیا کرتے ہوں گے؟ اگر بجلی فیل ہو جائے تو وہ ہارٹ فیل ہونے سے کیسے بچتے ہوں گے اور اگر کمرے میں ہارٹ فیل ہو جائے تو مردے کی منجھی (چارپائی) باہر کیسے نکالتے ہوں گے؟
ہم چند منٹوں میں فلیٹ والی عمارت کے قدموں میں پہنچ گئے' وہاں استقبالیے میں ایک ادھیڑ عمر امریکی کھڑا تھا۔ اس سے میرا تعارف کرایا گیا جس کا سلیس اردو میں مطلب یہ تھا کہ آدمی شریف ہے' میرا مہمان ہے' اسکے داخلے سے عمارت کو نقصان پہنچنے کا کوئی اندیشہ نہیں' اس کے بعد میزبان نے مطلوبہ فلور پر پہنچ کر اپنے فلیٹ کی چابی نکالی اور دروازہ کھول دیا۔
میں اندر پہنچا تو وہاں دنیا کی ہر نعمت بند تھی… اشیائے خوردونوش، اعلی فرنیچر، تازہ پھل، حسین بیوی اور پھولوں سے ننھے بچے، بیگم نے روایتی مسکراہٹ اور بنارسی ساڑھی سمیت آداب کہا، لیکن بچے ایک اجنبی چہرہ دیکھ کر دبک گئے ان کی عمریں پانچ اور سات سال کے لگ بھگ ہونگی، وہ منی پلانٹ کی طرح ہر وقت اندر ہی رہتے تھے' ان کے چہرے صاف بتا رہے تھے کہ وہ سورج کی دھوپ' چاند کی چاندنی' دادی کی گود اور نانی کی کہانیوں سے محروم ہیں۔ والدین نے انہیں انگریزی میں ہدایت دی کہ ٹی وی چینل ٹو پر چلڈرن پروگرام دیکھو، ریموٹ کنٹرول والی گاڑی اور جہاز سے کھیلو، جگ سا پزل بنائو اور اگر بور ہونے لگو تو سٹوری بکس پڑھتے رہو لیکن ہمارے بیڈ روم یا ڈرائینگ روم میں نہیں جانا ٹھیک ہے!
مجھے اپنا بچپن یاد آگیا جس میں شہتوت کا درخت تھا' بیری کا بور تھا' چڑیوں اور چوزوں کی چہچہاہٹ تھی' نواڑ کا پلنگ تھا' کورے گھڑے کا ٹھنڈا پانی تھا' منی پلانٹ کی جگہ جنگلی بیلیں تھیں جو دیکھتے دیکھتے منڈیر تک پہنچ جاتی تھیں' ان میں فاختائیں گھونسلے بناتی تھیں اور ہم ان کے انڈے چوری کرتے تھے۔ چچا، چچای تھے' تایا تائی تھے' تائی تقریباً ہر روز دوپہر کے وقت ایک روٹی خاص طور پر دیر تک تنور میں رہنے دیتی تھی جو وہیں پک کر سرخ اور خستہ ہو جاتی تھی۔ ہم اس گرم گرم روٹی کے ٹکڑے لے کر مزے سے چباتے تھے اور خوش ہوتے تھے اور کسی شرارش پر پٹائی ہونے لگتی تو لمبی گلیوں اور کھلے کھیتوں میں بھاگتے تھے' ہمیں کھلونے دے کر کوئی قید نہیں کرتا تھا۔
فلیٹ سے نکلنے لگے تو بے تکلفی نہ ہونے کے باوجود مجھ سے رہا نہ گیا اور نوجوان جوڑے سے کہا:
''ان پھولوں کو بھی لے چلو' رونق رہے گی۔''
''نہیں بھائی صاحب' یہ اندر ہی رہنے کے عادی ہیں' ہم انہیں صرف ویک اینڈز پر باہر لے جاتے ہیں۔ آج آپ کے کہنے پر انہیں باہر لے گئے تو ان کی عادتیں خراب ہو جائیں گی۔''
ہم سوبرب پہنچے تو وہاں نقشہ ہی دوسرا تھا' سر سبز و شاداب کھیت سبزہ ہی سبزہ' ڈھیر ساری زمین' میلوں تک پھیلا ہوا آسمان' وقفے وقفے پر بنے ہوئے ایک منزلہ خوبصورت مکان جن کی سنگترہ رنگ کی چھتیں نیلے آسمان اور سر سبز زمین کے درمیان نہایت دلفریب لگ رہی تھیں۔ ہر بنگلے کے گرد خوبصورت کٹی ہوئی Hedgeتھی اور لکڑی کا سفید گیٹ' ان میں صحت مند بچے اچھل کود کر رہے تھے۔ سامنے ایک جھیل تھی جس میں بادبانی کشتیاں جھول رہی تھیں۔ چند نوجوان لڑکے اور لڑکیاں موٹر بوٹ لے کر جھیل میں سیر کو نکل گئے تھے۔
ہم گاڑی سے اتر کر گھاس کے ایک تختے پر بیٹھ گئے' تازہ ہوا ہمارے چہروں کو سہلانے اور پھیپھڑوں میں بھرنے لگی' سبزہ تھا کہ نگاہیں ہٹانے کو جی نہیں چاہتا تھا' نظر ڈالنے سے چھوٹے چھوٹے الگ الگ بنگلے اور بھی خوبصورت لگتے تھے' کئی بچے اپنے اپنے رنگین سائیکل لیے ان بنگلوں سے باہر نکل آئے وہ خوش ہو رہے تھے' چہک رہے تھے۔
مجھے یہ امریکہ اچھا لگا اور میں سوچنے لگا کہ سب امریکی لوہے اور سیمنٹ کے ڈربوں میں سے نکل کر یہاں کیوں نہیں آبستے' مین ہٹن کے پکے قبرستان میں وہ کب تک زندہ درگور رہیں گے' انہیں ورڈز ورتھ پڑھانا چاہیے۔
میں امریکہ سے اس تاثر کے ساتھ روانہ ہوا کہ کاش یہ اندر سے بھی اتنا ہی سرسبز و شاداب و تروتازہ اور خوش و خرم ہوتا جتنا باہر سے نظر آتا ہے۔ میں نے امریکہ کے اوپر واپسی پرواز کرتے ہوئے اہالیان امریکہ کو یہی پیغام دیا کہ
''اے امریکہ والو! اپنے زمین و آسمان کا خیال رکھنا۔''
https://www.facebook.com/UnitedPeopleOfPakistan
No comments:
Post a Comment