پنجاب میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں اور عواتی سطح پر ان کی حمایت غلط قرار دینے والوں کا خیال یہ ہے کہ پنجاب کی سرزمین جغرافیائی حوالے سے قبائلی جنگجوئوں کے لیے سازگار نہیں اور اس کے زیادہ تر میدانی علاقے مخصوص پناہ گاہوں کا کام نہیں دے سکتے، اس لیے پنجاب میں روایتی طالبان کا پنپنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اصولی طور پر یہ سوچ طالبان کو مخصوص لباس اور مخصوص وضع قطع کے ساتھ دیکھنے اور جاننے تک محدود ہے اور ان کے ہاں طالب کا تصور ایک قبائلی اسلحہ بردار، نیم خواندہ کسی حد تک پسماندہ فرد کی ہے جس کو دور سے پہچانا جاسکتا ہے اور جو اپنی قبائلی دشمن داری کی روایت میں الجھے ہونے کے باوجود ایک راسغ العقیدہ شخص ہے۔ پنجاب میں ایسے شخص کو غیرت مند اور راست گو سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی تعریف ہے جس کے ڈانڈے ہماری جنگجوئی کی قدیم خواہش سے جا ملتے ہیں اور برصغیر کا مخصوص اور متعصب مورخ ہندوئوں کے ساتھ اپنے تعصب کے اظہار کے طور پر پختون جنگجوئوں کا ایسا نقشہ کھینچتا رہا ہے۔ چھوٹے بچوں اور نو عمر طالب علموں کو پڑھائیج انے والی معاشرتی علوم اور مطالعہ پاکستان کی کتب میں پختون اسلحہ بردار کو غیرت ایمانی کا مجسمہ اور ایک ایسا راسخ العقیدہ مسلمان ظاہر کیا جاتا ہے جو اپنی غیرت وطن اور اسلام کے نام پر اپنی جان نچھاور کرنے کو ہر وقت تیار نظر آؤا ہے۔ اس کے علاوہ پختون مجاہدین کی بہادری اور جانثاری کی داستانیں آج بھی پنجاب کے لوگوں کے لیے سبق آموز اور سنہری داستانیں ہیں جن میں انہیں کافروں اور دوسرے اسلام دشمنوں کے ازلی دشمن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا تصور زیر اثر پروان چڑھنے والے اذہان کو یہ باور کرانا کہ مسلح پختون یا کوئی بھی مسلح اور آمادہ قتال شخص کسی صحت مند معاشرے کے لیے کبھی بھی سود مند نہیں رہا۔
پاکستان جو ایک عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں مغربی دنیا خصوصاً امریکہ کا اتحادی ہے، آج اس کی ہئیت مقتدرہ کے ہاتھوں میں پلے ہوئے پنجاب میں برسر اقتدار مسلم لیگ نواز مرکزی حکومت سے دشمنی اور اختلاف کے باعث طالبان کے ٹھکانوں کو ختم کرنے سے گریزاں ہے اور جنوبی پنجاب میں طالبان اور ان کے مقامی فرقہ پرست ساتھیوں کے خلاف کسی قسم کے آپریشن پر آمادہ نہیں۔ مسلم لیگ نواز کے قائدین کا خیال ہے کہ اگر وہ مرکزی حکوم تاور بعض خفیہ ایجنسیوں کی خواہش پر پنجاب کے طاقتور انتہا پسند گروپوں اور خطرناک فرقہ پرستوں کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کریں گے تو پنجاب کے مذہبی حلقوں میں اس کی مقبولیت کو نقصان پہنچے گا۔ ان کی جماعت کا سب سے متحرک اور مالی معاونت کا ذمہ دار تاجر طبقہ جو کئی عشروں سے مسلم لیگ نواز، مذہبی انتہا پسندوں اور فرقہ پرستوںکو جہاد اور فرقہ وارانہ تطہیر کے عمل کو جاری رکھنے کے لیے امداد فراہم کر رہا ہے، اپنا ہاتھ کھینچ لے گا۔
مثال کے طور پر صرف لاہور کے صرافہ بازار میں ایسے سیاسی تجاروں کی طرف سے ایک محتاط اندازے کے مطابق 10کروڑ روپے ماہاہنہ چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے جو کشمیر میں جہاد کی علم بردار ایک متشدد مذہبی تنظیم کو اسلحہ کی خرید اور شہدا کے ورثا کی خدمت کے لیے دیا جاتا ہے۔ اگرچہ پنجاب بھر میں سیاسی طور پر متحرک تاجر تنظیمیں اور گروپ پاکستان کے متشدد مذہبی تنظیموں، جماعتوں اور گروپوں کے لیے اربوں روپے کا چندہ اکٹھا کرتے ہیں لیکن ان میں سے اکثر یا تو خود مسلم لیگ نواز کے ساتھ منسلک ہیں یا پھر وہ اپنے اپنے حلقوں میں مسلم لیگ نواز اور جماعت اسلامی کے مقامی دفاتر اور رہنمائوں کے لیے رقوم مہیا کرتے ہیں۔ انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق پورے پنجاب سے ہر ماہ چار سے پانچ ارب روپے سیاسی و مذہبی جماعتوں کی کارکرگی بڑھانے کے لیے جمع کیے جاتے ہیں جب کہ انتہا پسندوں اور فرقہ پرستوں کی مالی معاونت کے لیے انہیں مساجد اور مدارس کی تعمیر کے نام پر دستار بندی کی تقریبات اور جلے جلوسوں کے لیے الگ سے رقوم فراہم کی جاتی ہیں۔
چند سال قبل جب کشمیر میں جہاد زوروں پر تھا مریدکے میں کالعدم لشکر طیبہ کے سالانہ اجتماع میں لاہور کے تاجروں کے ایک گروپ نے وہاں پر حاضرین کے دل گرمانے کے لیے آویزاڈ کی گئی ''مال غنیمت کی رسی'' سے متاثر ہو کر کروڑوں روپے جہاد فنڈ میں دینے کا اعلان کیا۔ واضح رہے کہ لشکر طیبہ ہر سال نومبر یا دسمبر (ان مہینوں کا انتخاب اس لیے کیا جاتا تھا کہ شدید سردی اور برف باری کے باعث کشمیر کی سرحد عبور کرنا مشکل ہوتا) میں جہاد کشمیر میں عملی طور پر حصہ لینے والے مجاہدین اور پاکستان اور بیرون پاکستان اس جہاد کی مالی معاونت کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک سالانہ اجتماع کا اہتمام کرتا۔ اس اجتماع کے موقعہ پر پورے پنڈال میں ایک لمبی رسی کے ساتھ بھارتی فوجیوں سے چھینے ہوئے ہتھیار، فوجی وردیاں اور دیگر فوجی ساز و سامان آوایزاں کیا جاتا۔ رسی کے ایک کونے پر ''محاذ جنگ پر کافروں سے چھینا ہوا مال غنیمت'' لکھ کر لٹکا دیا جاتا۔ اصل مقصد دور دراز سے آنے والے لوگوں پر جہاد کی دھاک بٹھانا اور انہیں یہ بتانا مقصد تھا کہ لشکر طیبہ کے مجاہدین نہ صرف بھارتی کافر فوجیوں کو کشمیر میں جہنم واصل کر رہے ہیں بلکہ وہ مجاہدین کے خوف سے اپنا فوجی ساز و سامان بھی چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔
پنجاب میں مذہبی شدد اور فرقہ وارانہ جنگ کی ابتدا کا زمانہ اگرچہ جمہوری حکومتوں کا زمانہ ہے اور ضیاالحق کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت تھی لیکن ضیا دور میں منہ زور اور مہم جوئی کی طرف مائل آئی ایس آئی اصل میں فوجی جنتا کو باور کرانے میں مصروف تھی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نہ صرف پاکستان کے وسیع تر مفادات کے خلاف کجام کر رہی ہے بلکہ اس کی مرکزی قیادت نظریہ پاکستان اور اسلام کے سنہری اصولوں سے انحراف کے راستے پر چل رہی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے بارے میں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کی تیار کردہ رپورٹ میں سب سے پہلا نقطہ اعتراض بے نظیر بھٹو کا شیعہ مسلک کی طرف مائل ہونا ہے۔ اس کی وجہ جہاں نصرت بھٹو کا ایرانی شیعہ ہونا بطور ثبوت پیش کیا جاتا وہاں آصف علی زرداری جنہیں سندھ کا ایک رواتی ملنگ شیعہ (پاکستان کے اہل تشیع انقلاب ایران کے بعد ملنگ شیعہ اور غیر ملنگ شیعہ یا شرعی شیعہ کی ایک خالصتاً اندرونی تقسیم کا شکار ہیں اور دونوں مکاتب ایک دوسرے کو غلط سمجھتے ہوئے شیعت سے ہٹا ہوا سمجھتے ہیں) قرار دیا جاتا ہے، کی بیوی ہونے کے ناطے بینظیر بھٹو کو پاکستان کے اکثرتی مذہب کی نظر میں تقریباً ناپسندیدہ ظاہر کیا جاتا رہا۔
پنجابی طالبان ایسی تنظیموں کا ملغوبہ ہیں جن پر حکومت نے ماضی میں اس لیے پابندی عائد کردی تھی کہ ان کا تعلق پنجاب میں فرقہ واریت کو پروان چھڑانے والی جماعتوں سے تھا۔ انہوں نے جہادِ کشمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور ان کے تحریکِ طالبان پاکستان، افغانستان کے طالبان اور فاٹا کے قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد کے عسکریت پسندوں کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار تھے یہ لوگ فاٹا اور پاکستان کے کسی بھی حصے میں آزادانہ گھومتے، افغانستان اور فاٹا کے عسکریت پسندوں کو پاکستان کے اندر تخریبی کاروائیوں کے لیے نقل و حمل اور قیام و طعام کی تمام سہولتیں مہیا کرتے۔ مثلاً محض مارچ 2005اور مارچ 2007 کے درمیان 2000کے قریب عسکریت پسند شمالی اور جنویب پنجاب سے جنوبی وزیرستان منتقل ہوئے اور اپنے تعلقات کے دائرے کو وسیع اور مضبوط بنانے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نیپ نجاب کے مختلف شہروں کے حوالے سے سیکورٹی کے ڈھانے کی قیمتی معلومات تحریک طالبان پاکستان ک ہم خیال دوستوں کو فراہم کیں جنہوں نے بعد ازاں لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی کے ساتھ ساتھ پنجاب کے مختلف شہروں کو اپنے انتقام کا نشانہ بنایا۔
دہشت گردی کے تدراک کے لیے کام کرنے والے پاکستانی ادارے (NACTA) کے نئے چیئر مین طارق پرویز پنجابی طالبان کے ڈھانچے کے حواولے سے کہتے ہیں کہ ان کے نظریات، نقل و حمل کے وسائل اور پیسہ خلیجی ممالک سے آتا ہے۔ عرب ملکوں میں خصوصاً مصری اور سعودی شہری تمام ان کی معاونت کرتے ہیں۔ خودکش حملوں کے ماہر قاری حسین جیسے لوگ انتہا پسند حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں جب کہ پاکستانی طالبان انہیں شہدا مہیا کرتے ہیں۔
ان کے قبول ''پنجابی طالبان'' کی اصطلاح سب سے پہلے اس وقت سامنے آئی جب پننجاب کے کچھ مذہبی عناصر نے ''حرکت الجہاد الاسلامی'' کے قاد قاری سیف اللہ اختر کی زیر قیادت 1990میں افغانستان میں ملا عمر کی حکومت کی مدد کی اس جماعت کے نام یک دوبارہ باز گشت اس وقت سنائی دی جب 2001,2003کے درمیان سابق پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف نے پنجاب کے چند عسکری اور مذہبی گروہوں پر پابندی عائد کی۔ چنانچہ اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لیے یہ تمام گروپ فاٹا کی جانب منتقل ہونے لگے جہاں انہوں نے اپنے کیمپ قائم کرلیے۔ ان تمام گروہوں نے خصوصاً فاٹا اور عموملی طور پر شمالی وزیرستان میں اپنے علیحدہ تربیتی مراکز بھی قائم کیے۔
موجودہ پنجابی طالبان کی متعدد خامیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ مثلاً ان تنظیمی نظم و ضبط کا فقدان ہے اور کمان کمزور ڈھانچے پر استوار ہے۔ بنیادی طور پر یہ دور دراز بیٹھے لوگوں کے کمزور نیٹ ورک کے حصے کے طور پر کام کرتے ہیں یہ بکھرا ہوا شیرازہ کبھی لشکرِ جھنگوی، سپاہ ہصحابہ پاکستان، جیش محمد اور ان کی کئی ذیلی تنظموں پر مشتمل تھا جبکہ بعض ایسے انتہا پسند بھی ان کے ساتھ شامل ہیں جن کا کسی گروہ سے کوئی تعلق نہیں رہا اور وہ پنجاب کے کئی علاقوں میں پولیس کو بینک ڈکیتیوں ور دیگر جرائم میں مطلوب ہیں۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان میں سے کئی ایک نے 1990ء کی دہائی میں براہ راست حکومتی سر پرستی میں پیشہ وارانہ تربیت حاصل کی تھی اور گوریلا کاروائیوں سے لے کرتباہی پھیلانے کی کاروائیوں کی مکمل تربیت حاصل کیا۔ پنجابی طالبان بھارتی ہتھیار استعمال کرنے کے بھی ماہر ہیں اور تحریک طالبان پاکستان کے علاوہ ان علاقوں کے دیگر عسکریت پسندوں کے ساتھ آزادانہ کاروائیاں انجام دیتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر دسمبر 2008ء کے اواخر میں پانچ پنجابی طالبان اس وقت فضائی ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئے جب وہ ایک ٹرک میں مسلح ہو کر ڈرون طیارے کا پیچھا کر رہے تھے۔ ان کا ٹرک مٹی اور گھاس کے جھنڈ میں پوشیدہ تھا مگر وہ اپنی مشکوک نقل و حرکت سے نشانہ بن گئے۔
تیسری بات یہ بھی ہے کہ یہ لوگ زیادہ ترس نی العقیدہ اور سلفی مسلمان مکاتب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک انٹرنیشنل کرائسز گروپ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پنجاب میں دیو بندی فریق کی انتہا پسند شاخ نے فوج کے دم سے ہی اپنی جڑیں مضبوط کی تھیں کیوں کہ پنجابی طالبان نے ان دیوبندی مدرسوں کے پھیلائے ہوئے جال سے تعلیم حاصل کی تھی جنہیں سابق صدر جنرل ضیا الحق نے 1977سے 1988تک پنجاب بھر میں پھیلایا۔
عسکریت پسندوں کے خاندانی پس منظر کے بارے میں ایک سروے:
پاکستان میں سرگرم ان تنظیموں میں شامل عسکریت پسندوں کے متعلق یہ بتانا نہایت مشکل ہے کہ وہ کون سے محرکات اور معاشرتی اور گھریلو عوامل تھے جنہوں نے انہیں ان تنظیموں سے وابستہ ہونے پر اکسایا۔ بہت سے دانشوروں کے چیدہ چیدہ انٹرویوز سے یہ بات عام ہوئی کہ پاکستانی دینی مدارس غریب بچوں کو تعلیم اور تربیت دے کر عسکری تنظیموں میں بھیجتے ہیں ان دانشوروں کا یہ خیال بھی تھا کہ تمام عسکریت پسند غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی شعوری سطح ناپختہ ہونے کی وجہ سے دینی مدرسے انہیں بنیاد پرستی کے صحرا کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔ خصوصاً 11ستمبر کے امریکہ پر حملے کے نتیجے میں اربابِ اختیار مسلسل اس بات کا تقاضا کر رہے تھے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں میں تعلی کا معیار بلند کیا جائے۔ صدر بش نیب ھی اپنے ایک بیان میں وضاحت کی کہ ہمیں غرب سے لڑنا ہے کیونکہ اس سے وابستے موہوم امید ایک ایسی کرن ہے جو کہ شاید دہشت گردی کا سدِ باب کرنے میں کامیاب ہوسکے۔
پاکستان کی مثال کو سامنیرکھتے ہوئے 11ستمبر کی کمیشن رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ غربت، رشوت ستانی اور حکومتی معکوش روئیے ہی ایسے منفی رجحانات تھے جنہوں نے عسکریت پسندی کو ہوا دی۔ ان تمام خدشات پر بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے برملا اظہار خیال کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کے معروضی پس منظر کے بغیر عسکریت پسندوں کے متعلق متنازعہ خیالات کسی مضبوط بنیاد پر استوار نہیں تھے۔ نہ ہی جہادیوں کے خاندانی پس منظر پر کوئی عقدہ کشائی کی گئی تاہم اس زمرے میں تحقیقی کام جو کہ مریم ابو ذہب اور محمد عامر رانا نے انجام دیا خاصا قابل ستائی اور اہمیت کا حامل تھا۔
عسکریت پسندی کے محرکات، خاندانی پس منظر اور مذہبی رجحانات کی بنیاد پر معروف سکالر کرسٹین فیئر نے ایک سروے کی روشنی میں جامع تحقیقاتی مضمون لکھا ہے کہ یہ لوگ کون تھے، کس طرح جہادذی تنظیموں میں شمولیت اختیار کی اور بالآخر کشمیر یا افغانستان کے محاذوں پر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے شہید کہلوائے۔ اس رپورٹ میں مختلف سوالوں کے جوابات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں ذاتی سوالات سیالے کر گھریلو معاملات کو بھی زیر حبث لایا گیا ہے۔ باوثوق ذرائے سے شہدا کی تعلیمی قابلیت، روزگار اور خاندانی پس منظر کے متعلق آگاہی حاصل کی گئی جس سے پتہ چلا کہ انہیں کہاں سے بھارتی کیا گیا کس گروپ نے انہیں قبول کیا ان کی تربیت کہاں کی گئی انہوں کہاں ''خدمات'' انجام دیں اور پھر کیسے شہید ہوئے۔ اس ڈیٹا کی بنیاد پر ایسے مضبوط شواہد سامنے آئے جن کا پالیسیاں ترتیب دینے میں بنیادی کردار ہوسکتا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ اس عسکریت پسندوں کو سمجھنے میں بہتر مدد ملے گی اور معاملات حل کرنے کی جانب مثبت اقدامات کیے جا سکیں گے۔
اس سروے کو امریکہ کے ادارے ''انسٹیٹیوٹ آف پیس برائے تنازعات اور ان کا تدراک'' کی مدد سے ترتیب کیا گیا۔ زیادہ تر توجہ کا مرکز پنجاب اور سرحد کے صوبے رہے تاہم سندھ، بلوچستان اور آزاد کشمیر کو بھی شامل کیا گیا تمام ڈیٹا اور معلومات اگست 2004ء سے لیکر اپریل 2005ء کے درمیان اکٹھی کی گئیں۔ اور یہ بھی کوشش کی گئی کہ ہر اس خاندان سے ملا جائے جس کا کم از کم ایک شہید جہاد کی نذر ہوا اور یہ بھی مد نظر رکھا گیا کہ سوویت یونیت کی افغانستان میںجنگ کو نظر انداز کرتے ہوئے 1990ء کے بعد کے دور کے آس پاس ہی رہا جائے کیونکہ یہی وہ دور ہے جب افغانستان اور کشمیر میں موجودہ تنازعات نے سر اٹھایا۔ مکمل رپورٹ تیار کرنے میں شہید کے خاندان کی گھریلو معلوماً مثلاً اخراجات کا حجم، گھر کا رقبہ، کنبے کے افراد کی تعداد، ازدواجی حیثیت، عمر، تعلیم اور دیگر افراد کی تعلیمی قابلیت کو بھی جانچا گیا۔ مذہبی اور دنیاوی تعلیم کے متعلق بھی اعداد و شمار اکٹھے کیے گئے۔ اس ڈیٹا میں ان لوگوں کا سول سروس اور حکومتی اداروں سے تعلق، مردوں اور عورتوں میں ملازمت کے رجحانات، آمدنی اخراجات اور وراثت کو پرکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف مکتبہ فکر کے متعلق ان کے نظریات کو سمجھنے میں بھی مدد ملی۔ جب کہ ایک عسکریت پسند کی شہادت سے پہلے اور بعد کے ان حالات پر بھی غور کیا گیا جو کہ اس کے گھر والوں کے استھ پیش آئے۔
خاندانی یونٹ کی بنیاد پر تقریباً 53فیصد چھوٹے کنبوں سے تعلق رکھتے تھے۔ شہری تناسب سے چھوٹے کنبوں کی تعداد بھی اتنی ہی تھی جب کہ شہیدوں کے خاندانوں کو مدِ نظر کھیں تو ان کا حجم 12افراد پر مشتمل تھا۔ جب کہ پاکستان کے حوالے سے خاندان کا اوسط حجم 7اور 8افراد کے درمیان ہے۔
131مجاہدین کے سروے کے مطابق اوسط خاندانی تناسب 144فی صد رہا۔ 90خانداوں میں ایک مجاہد تھا، 28خاندانوں میں 2اور 12خاندانوں میں 3مجاہدین تھے جب کہ 2خاندانوں میں بتدریج 4اور 5کی تعداد میں تھے۔
صوبوں کی بنیاد پر جغرافیائی تسیم کے نمونہ کا چارٹ
اس سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ عمومی طور پر تمام خاندان والے اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ ان کے کنبے کے فرد نے شہادت کا جام پی لیا ہے۔ 141میں 110یعنی 78فی صد یہ بھی سمجھتے تھے کہ ان کا عزیز کسی تنظیم میں شمولیت اختیار کر چکا ہے۔ کنبے کے باقی افراد بھی جانتے تھے کہ ان کا بھائی بند کسی تنظیم کا ممبر بن چکا ہے۔
جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ہر خاندان کا سربراہ کل اختیارات کا مالک تصور ہوتا ہے اس مقصد کے لیے سروے سے جو معلومات اکٹھی کی گئیں۔ ان میں مدعا علیہان کے گھروں کا محل وقوع، قابلیت، عمر، جنس اور تعلیمی پس منظر بھی جانچا گیا ہے۔ محض 17(12فیصد) مدعا علیہ نے مذہبی مدرسوں میں داخلہ لیا جب کہ ان میں سے صرف 7نے تعلیمی سرٹیفکیٹ حاصل کئے۔ انہوں نے کلی طور پر کم از کم دو سال تک مدرسوں میں حاضری کو ممکن بنایا جب کہ مدرسے کی مکمل تعلیم کے لیے 8سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف 4فیصد ہی طلبا یاسے تھے جنہوں نے مکلم تعلیم حاصل کی پاکستان کے باقی مدرسوں کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں تھی۔
جہاں تک سیکولر تعلیم کا تعلق ہے اس سروے میں بھی لوگوں کی خاصی تعداد پڑھتی لکھی نکلی۔ مردوں میں 27فیصد کی کوئی رسمی تعلیم نہیں تھی جب کہ 22فیصد نے میٹرک یا اس سے کم تعلیم حاصل کی تھی۔ 22فیصد میٹرک یا انٹرمیڈیک سے کم تعلیمی درجے کے تھے۔
16فیصد انٹرمیڈیٹ یا گریجیویشن سے کم تھے اس تمام سروے سے یہ نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہ کہ آدھے سے زائد مجاہدین اوسطاً میٹرک تھے۔ میٹرک تک تعلیم مکمل کرنا پاکستان جیسے ملک میں ایک بڑا سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی آبادی میں میٹرک پاس مردوں کی تعداد 32فیصد ہے۔ قومی معیار کو مدِ نظر کھتے ہوئے سروے کے اس نمونے میں پڑھے لکھے مجاہدوں کی تعداد خاصی بڑی دکھائی دیتی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ عسکریت پسندوں کا تعلق کن طبقات سے تھا۔
پاکستان میں سیکورٹی فورسز اور خفیو فوجی اداروں کی ایک لمبی تاریخ ہے ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے جہادی عناصر کے فوجی پس منظر کے حوالے سے بھی سروے کیا گیا جس سے پتہ چلا کہ 14فیصد ایسے لوگ تھے جنہوںنے فوجی تربیت حاصل کی تھی 11افراد یعنی 14فیصد آرمی میں خدمات انجام دے چکے تھے۔ ایک فی صد بحری فوج میں جب کہ ایک فیصد نے نیشنل گارڈز کی ملازمت کی تھی ایک فیصد پولیس اور 5فیصد سیکورٹی ایجنسیوں سے آئے تھے۔
سروے سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ 60فیصد کا تعلق دیو بندی مسلک سے تھا 22فیصد اہل سنت مسلک اور جماعت اسلامی سے متاثر تھے 11فیصد بریلوی اور 6کافی صد اہل حدیث مکتبہ فکر کے تھے جب کہ اس نمونے میں کوئی شیعہ شامل نہیں۔ جب کہ اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے بریلوی اکثریت میں ہیں۔
جب متعلقہ خاندان والوں سے مجاہدین کے مذہبی رجحانات کے متعلق سوالات دریات کیے گئے تو 105خاندانوں یعنی 75فیصد کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی کہ وہ لوگ باقی افرادِ خانہ کی مانند ہی تھے۔ جبکہ 21فی صد نے کہا کہہ ان میں مذہبی وابستگی باقی اہلِ خانے سے نسبتاً زائد تھی 5فیصد ایسے تھے جو خاندان کے دوسرے لوگوں سے کم مذہبی تھے۔
جب مذہبہی مجالس اور دیگر اسلامی درسوں میں حاضری کی کیفیت کو مدِ نظر رکھ کر سروے ہوا تو 97فی صد مرد ایسے تھے جو باقاعدگی سے اسلامی اجلاسوں میں شرکت کرتے تھے جب کہ 82فیصد خواتین بھی تھیں۔ 2001ء میں ورلڈ ویلیو سروے کی رپورٹ کے مطابق 50فیصد لوگ ہفتے میں ایک سے زائد بار مذہبی تقریبات میں شرکت کرتے رہے تھے۔ 23فیصد ہفتے میں ایک بار ایسی تقریبات میں جاتے تھے جب کہ 17فیصد کے متعلق یہ رپورٹ تھی کہ وہ مہینے میں ایک بار ضرور مذہبی اجلاس میں اپنی شرکت ممکن بناتے تھے۔ کل تعداد کو دیکھتے ہوئے کہاجاسکتا ہے کہ اوسطاً 91فیصد لوگ ہر ماہ میں ایک بار ضرور مذہبی مجالس میں جاتے تھے اور 8فی صد سال میں ایک مرتبہ کسی خاص موقے پر ضرور حاضری دیتے تھے۔
جب شہدا کے اہل خانہ سے پوچھ گچھ کی گئی کہ کیا شہادت کے بعد شہید کے گھر والوں میں مذہبی سرگرمیوں کے حوالے سے کچھ کمی ہوئی ہے تو جواب نفی میں تھا۔ 58فیصد میں مذہبی رجاحنات جوں کے توں پائے گئے جب کہ 41فیصد یا 58فیصد افراد میں پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ مذہب کی جانب رغبت نظر آئی۔
مختلف خاندانوں کے سروے رپورٹ کے مطابق (141میں سے 99) 70فیصد کنبوں میں ایک شہید تھا۔ ہر پانچ میں سے ایک خاندان کے دو شہید تھے۔ 10میں سے ایک خاندان میں تین مجاہد تھے جب کہ دو خاندانوں میں بتدریج چار اور پانچ کی تعداد میں مجاہد تھے۔ ان میں سے زیادہ تر تعداد نے افغانستان کے بجائے کشمیر میں جہادی سرگرمیوں میں حصہ لیا تھا۔
سروے میں یہ بات سامنے لائی گئی ہے کہ مجاہدین کا تعلق کن علاقوں سے تھا اور انہوں نے کہاں شہادت پائی۔ مجاہدین کے لیڈر ہرر شہید کے گھر بہ نفسِ نفیس تشریف لاتے اور انہیں مبارکباد کے علاوہ کچھ مراعات اور امداد بھی بہم پہنچاتے تھے۔ نیچے دئیے گئے ٹیبلز میں یہ تفصیلات درج ہیں کہ شہدا نے کن خطبوں میں جام شہادت نوش کیا۔
جب خاندانوں والوں سے شہدا کی عمر کے متعلق استفسار کیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ تمام مجاہدین جنہوں نے جام شہادت نوش کیا اس وقت نو عمر تھے۔ عمومبی اور اوسط عمر 22سال تھی۔ سب سے کمر عمر 12سال کا شہید تھا اور سب سے بوڑھا شخص 52سال کی عمر کا تھا۔ زیادہ تر تعداد 17اور 25کے درمیان ہے جو کہ 79فیصد تھے۔
خاندان کے عمائدین نے ان مذہبی گروپوں کے نام بھی بتائے جن سے ان کے نوجوانوں کا تعلق رہا۔ مگر کسی نے بھی شیعہ مخالف تنظیموں مثلاً لشکرِ جھنگوی یا سپاہ صحابہ پاکستان سے اپنی وابستگی کا اظہار نہیں کیا۔ سروے کے اس نمونے میں 57فیصد کا تعلق جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیموں سے تھا یعنی البدر سے 54 عزب المجاہدین سے 27لوگ وابستہ تھے۔ سروے کے اس نمونے میں چوتھائی افراد کا تعلق دیوبندی تنظیم سے تھا 18عدد حرکت المجاہدین اور 6عدد کی جیش محمد سے وابستگی تھی۔ اہلحدیث کی تنظیم میں 13فیصد لوگ شامل تھے جن میں سے 13لشکرِ طیبہ اور 5افراد کا تعلق تحریک المجاہدین سے تھا۔ جماعت اسلامی سے عنادر رکھنے والے تحریک نفاذِ شریعت محمدی کے شہدا کی تعداد 9بنتی تھی جو کہ 6فیصد کے قریب ہے۔ بریلوی مکتبۂ فکر کی 2شہدا کے ساتھ 2فیصد تعداد بنتی تھی جو کہ سنی جہاد کونسل اور تحریک جہاد کی نمائندگی بھی کر رہے تھے۔
شہدا کی اوسط عمر کا خاکہ
عموماً جہادی افراد اپنے مسلک کی تنظیمیں ہی منتخب کرتے رہے ہیں لیکن پچھلے سروے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر دفعہ یوں نہیں ہوا۔ مثلاً اہل حدیث کی تنظیم لشکر طیبہ اپنے سماجی اور جہادی پروگراموں کی وجہ سے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کراچکی تھی۔ اس کا وجود طبی کلینک، اسکولز اور مدرسوں کی شکل میں پھیلا ہوا ہے جس سے وہ دوسرے مکاتبِ فکر کو بھی جلد ہی اپنی جہادی تنظیموں کی جانب راغب کرتے رہے ہیں۔
مختلف تنظیموں سے شہدا کے تعلق کا چارٹ
دیکھا گیا ہے کہ خودکش بمبار جو کہ آج کل افغانستان اور پاکستان میں سرگرم عمل ہیں ان کی تربیت مخصوص مدارس میں ہی ممکن ہوئی ہے۔ جب تنظیمی تربیت کے حوالے سے مجاہدین کے خاندانوں سے استفسار کیا گیا کہ کیا ان افراد نے باقاعدہ مذہبی تنظیموں میں شمولیت اختیار یک تھی مثلاً اسکولوں اور کالجوں کی چھٹیوں کے دوران بھی بعض تنظیمیں طلبا کو اپنے تربیتی پروگراموں کی جانب رابغ کرتی ہیں۔ اس سروے سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ 141سے 117یعنی 83فیصد حضرات نے یہ تربیتی کورسز مکمل کیے۔ مثلاً کیمپوں میں حاضری دی اور کم از کم ایک شہید ایسا بھی تھا جو کہ ایئر فورس میں بھی خدمات انجام دے چکا تھا۔ جب جہادی حضرات کے رینک اور سٹیٹس کے متعلق پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ شہدا میں 30شہید یعنی 21فیصد کمانڈر کے درجے پر فائز تھے۔ جبکہ باقی ماندہ عام کیڈٹ تھے۔
شہدا کے ریکارڈ سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان کی تعلیمی قابلیت عام پاکستان کی اوسط تعلیم سے زیادہ تھی۔ جبکہ محض 6فیصد ایسے لوگ تھے جن کی تعلیم رسمی نوعیت کی تھی۔ 35فیصد کا تعلیمی معیار پرائمری سے زائد اور میٹرک سے کم تھا جبکہ 40فیصد میٹرک کر چکے تھے اور انٹر میڈیٹ کی ڈگری حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ 31فیصد گریجوایشن نہ کر پائے تھے جبکہ انٹر میڈیٹ کی ڈگری لے چکے تھے اور 6فی صد ایسے بھی جو سیکنڈری سے اوپر کے درجے تک تعلیم یافتہ تھے۔ دوسرے لفظوں میں 58فیصد کے قریب شہدا میٹرک کی تعلیم حاصل کرچکے تھے اور ان میں سے کئی ایک نے مزید تعلیم بھی حاصل کی تھی۔ اگر تمام پ اکستان کو مدِ نظر رکھا جائے تو میٹرک پاس طلبا کی تعداد ہر تین نوجوانوعں میں سے ایک ہے اور اس سروے میں تمام خاندان صوبہ سرحد سے منخب کیے گئے تھے جہاں تعلیم کے معاملے میڈ دیگرر صوبوں سے پسماندگی کا تناسب بھی زیادہ ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس نمونے میں شہدا کی تعداد خاصے پڑھے لکھوں کی تھی۔ جس سے ان شواہد کو بھی ہوا ملتی ہے کہ عسکریت پسندوں کو سامنے لانے میں محض مدرسوں کا کردار ہی نہیں رہا بلکہ ان تجزیوں کو مزید باریک بینی سے حقائق دیکھنے کی ضرورت ہے۔
جب سیکولر تعلیمی بنیاد پر سروے کیا گیا تو ان شہدا کے گھر والوں سے دینی مدرسوں میں حاضری کے حوالے سے یہ پتہ چلا کہ چار شہیدوں میں سے ایک سے بھی کم شخص نے مدسرے کی تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور اس کا نسبتی تناسب 23فیصد ہے۔ 33شہدا جنہوں نے جام شہدات نوش کیا تھا اس میں سے 13افراد نے مذہبی اسناد حاصل کی تھیں۔ یہ تعداد سروے کے نمونے کا 9فیصد ہے اور تمام افراد جنہوں نے باقاعدہ مدرسوں سے تعلیم حاصل کی ان کی تعداد 40فیصد ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ یہ تعلیمی اسناد چار اقسام کی ہیں۔ جب تک یہ پتہ نہ چلے کہ کس شہید نے کون سی سند حاصل کی تھی یہ کہنا مشکل ہے کہ کہاں تک مدرسوں سے استفادہ کیا گیا تھا۔ بہر حال ان شہدا نے جو درمیانی مدت تک مدرسہ میں جاتے رہے تین افراد تھے اکثریت یعنی 93فیصد پانچ سال یا اس سے کم عرصے تک زیر تعلیم رہے۔
ایک بڑا عنصر بے روزگاری بھی رہی جس نے اسکول کی سطح سے ہی طلبا کو جہادی تنظیموں کی جانب راغ کیا۔ جب شہدا کے خاندان والوں سے مجاہدوں کی ملازمت کے حوالے سے سوالات پوچھے گئے تو معلوم ہوا کہ تنظیموں میں شمولیتی سے پہلے 33نوجوانو یعنی 23فیصد پبلک اسکولوں یا مدرسوں میں زیر تعلیم تھے۔ اگر 70میں سے 33منہا کریں تو تقریباً چار میں سے ایک بیروازگار ہے نہ کہ دو میں سے ایک۔اس سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انتہائی پڑھے لکھے لوگوں میں بے روزگاری شرح بلند تھی۔ برسرِ روزگار افراد کے حوالے سے بھی مختلف شواہد سامنے آئے۔ ان مجاہدین کے ملازمتوں کے حساب سے مختلف پیشے تھے۔ زیادہ تر افراد دوکاندار، کسان اور دیہاڑی دار مزدور تھے، اچھے ہنر مندوں کی تعداد بھی کچھ کم نہ تھی۔ بطور ڈاکٹر، نرس، آٹو مکینک، ایکسرے ٹیکنیشن وغیرہ کی خدمات انجام دے چکے تھے۔ شہدا میں سے ایک فرنٹیر کنٹیبلری FCکا ممبر بھی رہا تھا۔ 69باروزگار شہدا میں سے 56یعنی 8فیصد افراد کی سابقہ ملازمتوں کو محض ایک سے چار سال کا عرصہ گزرا تھا۔ بہر حال پڑھے لکھے افراد کی بے روزگاری کے مسئلے کو کم اہم نہیں سمجھنا چاہیے۔
اس سروے میں ازدواجی پہلو کو بھی مدِ نظررکھا گیا ہے جس میں بھرتیہونے کے وقت سے شہادت تک اور اگر ان کے ہاں بچے تھیتو ان کا تناسب بھی شامل کیا گیا ہے۔ عموملی طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ جہادی حضرات نوجوان اور غیر شادی شدہ لوگ ہوتے ہیں مگر اس تجزیے میں بات سامنے آئی ہے کہ بھرتی کے وقت 2شہید یعنی 14فیصد شادی شدہ تھے۔ جبکہ ایک جوڑے میں علیحدگی ہو چکی تھی۔ 19افراد یعنی 13فیصد اپنی شہادت کے وقت رشتہ ازدواج سے منسلک تھے جبکہ ان میں سے بھی ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے رکھی تھی۔ جبکہ شادی شدہ افراد میں سے 15فیصد یعنی 11فیصد صاحبِ اولاد تھے۔
فضائل شہادت
پاکستان میں بھی فلسطین اور دیگر کئی اسلامی ممالک کی طرح شہادت کا تصور اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے اور معاشرہ بھی شہید کے خاندان کو سرآنکھوں پر بٹھاتا ہے۔ شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال کے ایک شعر کا ایک مصرع اس کا بہترین غماز ہے۔
صلہِ شہید کیا ہے تب و تابِ جاودانہ
شہید کے گھر ووالوں کو لوگ تمام معاشی رضوریات بہم پہنچاتے ہیں اس کے نام پر کنوئیں کھودے جاتے ہیں۔ گلیوں اور سڑکوں کے نام شہید کے نام سے منسوب کر دئیے جاتے ہیں۔ شہید کے بیٹے اور بیٹیوں کا رہن سہن بہتر ہو جاتا ہے۔ بچوں کی شادیوں پر بھرپور معاونت کی جاتی ہے۔ شہادت حاصل کرنے والے مجاہدوں کے گھروں سے پوچھ تاچھ کے بعد مندرجہ ذیل حقائق سامنے آئے 17یا 12فیصد گھروالوں نے اعتراف کیا کہ ان کے حالاتِ زندگی بہتر ہوئے ہیں۔ 75فیصد نے بتایا کہ ان کے گھریلو حالات جوں کے توں ہیں۔ 10فیصد خاندانوں نے حالات کی خرابی کا رونا رویا۔
شہید کے خاندان ک یلوگوں کی شادیوں کے معاملات پر بھی ایک سروے ترتیب دیا گیا۔ جس میں جہیز کے معاملے میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ 67میں 58خاندانوں کی بیٹیوں کا جہیز عام لوگوں کی طرح ہی ادا کیا گیا۔ 6نے کم از کم ادا کیا اور 3نے زیادہ مقدار میں دیا۔ جبکہ تمام افراد کو اچھے امیر خاندانوں میں رشتے ملے۔ 90خاندانوں کے اعداد و شمار کے مطابق 23افراد یا 26فیصد کو بہتر خاندانوں میں رشتے میسر آئے۔ 66افراد یا 73فی نے کسی تبدیلی کا ذکر نہیں کیا جبکہ محض ایک رشتہ برے حالات میں بھی ہوا۔
افغانستان میں روسی مداخلت کے بعد کئی عرب اور افغانستان پاکستان میں آکر آباد ہوگئے اور مقامی لڑکیوں سے شادیاں رچالیں اور یہ زیادہ تر ان پشتون علاقوں میں ہوا جو پاکستان اور افغانستان کے بارڈر کے علاقے میں تھے۔ نوجوانوں کی شہادت کیب عد جب ان کے خاندان سے رابطہ کیا گیا کہ کیا ان غیر ملکیوں نے ان کے افرادِ خانہ سے شادی کے معاملے میں رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ ایک فیصد یا دو خاندانوں کی لڑکیوں کے ساتھ ان مجاہدوں نے بیاہ کیے۔
افغانستان میں جہاد کے لیے منتخب افراد نسبتاً کم تعلیم یافتہ تھے اور اغلب خیال ہے کہ وہ مدرسوں کے ہی فارغ التحصیل تھے کیونکہ خود کش بمباروں کی اکثریت پاکستانی قبائلی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے اور یہ کشمیری جہادیوں کی نسبت نوخیز جوان ہیں۔ یعنی ان کی عمروں کا تعین 15سال یا اس سے بھی کم کیا گیا ہے۔ ان کی تعلیم نہایت معمولی یا نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
جیسا کہ دیکھا گیا ہے یہ عسکریت پسند بنیادی طور پر مدرسوں سے نہیں چنے گئے تھے بلکہ اس سروے کے مطابق مساجد، تبلیغ اور دوسرے ذرائع سے آئے تھے جبکہ مدرسوں سے آنے والے مذہبی منافرت اور خود کش حملوں کے لیے استعمال ہوئے۔اس سے ان شواہد کا تخمینہ لگانے میں مدد ملی کہ محض مدرسوں کی وساطتے سے ہی عسکریت پسندوں کو بھرتی کرنے کا تخمینہ یا اندازہ درست نہیں بلکہ اگر کشمیر یا دوسری چنوتی والی کاروائیوں کوو جانچا جائے تو پبلک اسکولوں کے طلبا کا کردار بھی بنیادی اہمیت اختیار کر جاتا ہے کیونکہ ملک میں 70فیصد سے زائد طلبا انہیں اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ مدرسوں میں محض 3فیصد سے زائد طلبا انہیں اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ مدرسوں میں محض 3فیصد یا اسے سے بھی کم طلبا داخلہ لیتے ہیں۔ طلبا کی سروے رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ پبلک، پرائیویٹ اورمذہبی اسکولوں کے ساتھ ساتھ مدارس کے طلبا جہاد کی حمایت کرتے تھے اور ہندوستان کے خلاف جارحانہ رویہ رکھتے تھے۔
اس سروے نے ایک نئے راستے کی سمات راہنمائی کی ہے کہ خاندان والے اپنے پیاروں کی مذہبی تنظیموں میں شرکت سے آگاہ تھے اور کئی ایک افراد گھر سے بغیر اجازت لیے بھی چلے آئے۔ شاید اس کے لیے ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے محرکات ہیں جو کہ گھر والوں کو اپنے بچوں کی جہادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کو معیوب خیال نہیں کرتے۔ شاید ان سماجی قدروں کی کارفرمائی ہے کیونکہ خاندان کے افراد ایک بڑے کنبے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ دوسرے تجزیوںسے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جن خاندانوں کے اثاتے یا جائیداد زیادہ ہوتی ہے وہ مجاہدوں کی رائے سے متفق نہیں ہوتے بلکہ ان کی تنظیموں میں رکنیت سازی کی مخالفت کرتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment